عید کی خوشیوں کا اصل حقدار کون؟... آفتاب احمد منیری

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ دنیا میں سب سے پہلی عید اس عظیم انسانی گروہ نے منائی تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے پہلی اسلامی جنگ غزوہ بدر میں عظیم الشان فتح عنایت فرمائی تھی

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

آفتاب احمد منیری

نیکیوں کا موسمِ بہار، خوشیوں اور مسرتوں کا سرمایہ عظیم ماہ قرآن رمضان کریم ہم سے رخصت ہوا۔ اس مبارک مہینے کی رحمتیں اور برکتیں جن بندگانِ خدا کو نصیب ہوئیں وہ ہر لحاظ سے قابل صد رشک ہیں، کہ جنھوں نے اندھی مادیت کے اس دور میں بھی احتسابِ نفس کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماہ صیام کی روحانی لذتوں سے خود کو آبرو مند کیا۔ دوسری جانب مسلمانوں کی اکثریت کا حال! جسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے گا۔

روزے کے متعلق قرآنی ہدایات، تعلیمات نبویؐ اور سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر آج کی نوجوان نسل ماہِ رمضان کے مبارک ایام جس انداز میں گزارتی ہے، اسے دیکھ کر عبادت کی جگہ تفریح کا گماں ہوتا ہے۔ مسلم علاقوں میں ہوٹلوں پر یورش کرتی نوجوانوں کی بھیڑ، عید کی شاپنگ میں مصروف مسلم خواتین کا بازاروں کی رونق میں اضافہ کرنا، ساتھ ہی ساتھ چائے اور سگریٹ نوشی کے نام پر دیر رات تک عام شاہراہوں کو جام کر دینا... یہ ہیں وہ اعمال جنھیں شعوری طور پر انجام دے کر ہم رمضان کریم کی مقدس ساعتوں میں اسلامی شعار کا مذاق اڑاتے ہیں، اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ نیکیوں کے اس موسمِ بہار کی بنیادی غرض و غایت کیا ہے۔ ماہِ رمضان کے روزوں کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کرتے ہوئے قرآن حکیم نے فرمایا ہے: ’’ائے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ تم سے اگلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ)

رمضان کریم کی شان و عظمت اور اس کے روزوں کی بنیادی غرض و غایت سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی واقف تھے، چنانچہ ان کے نزدیک رمضان کے روزے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ تھا۔ وہ رمضان کی راتوں میں قیام کرتے، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے، اس سے جنت کا سوال کرتے اور دوزح سے پناہ طلب کرتے اور روزے کی حالت میں خواہشات نفس نیز تمام برائیوں سے اعلان برأت کرتے۔ ایسے ہی خوش نصیب بندوں کے لیے عیدالفطر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت بڑا انعام ہے۔ اس مبارک دن کی برکتوں رحمتوں اور فضیلتوں کے بیان سے کتب احادیث بھرے پڑے ہیں۔ مگر یہ رتبۂ بلند یعنی عیدالفطر کی حقیقی مسرتیں اور سعادتیں اس بندۂ مومن کو حاصل ہوتی ہیں جس نے ایمان اور احتسابِ نفس کے ساتھ ماہ قرآن کا استقبال کیا ہوگا، نیکیوں میں سبقت اور برائیوں سے دوری اختیار کی ہوگی، حقوق اللہ کے ساتھ بندوں کے حقوق کا خیال رکھا ہوگا، اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کیا ہوگا۔ ان مذکورہ صفات کے حاملین کو ہی رحمت کائنات حضرت محمدؐ نے خوش خبری سنائی ہے کہ وہ انعامات الہٰی کے مستحق قرار پائیں گے اور عید کی روحانی لذتوں اور قلبی مسرتیں انھیں نصیب ہوں گی۔


اس کے بالمقابل روحانی کیف و سرور اور فرحت و انبساط سے وہ لوگ قطعی طور پر محروم ہوتے ہیں جنھوں نے صحت و عافیت سے بہرہ مند ہونے کے باوجود ماہ قرآن کے روزوں کا اہتمام نہیں کیا اور شہرِ رمضان کے بیش قیمتی ایام کھانے پینے اور معصیت الٰہی میں گزار دیے۔ ایسے روزہ خور افراد اللہ کی رضا اور خوشنودی سے دور تو ہوتے ہی ہیں، ان کا ضمیر بھی انھیں ملامت کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ عید کے دن کو خدائے بزرگ و برتر نے ایمان اور احتسابِ نفس کے ساتھ روزہ رکھنے والوں ہی کے لیے مخصوص فرمایا ہے۔ روزہ خوروں کے لیے عید الفطر کا دن اور دوسرے ایام ایک جیسے ہوتے ہیں، اور ان کا دل روحانی مسرتوں سے خالی ہوتا ہے۔ بھلے ہی وہ اس دن زرق برق لباس میں نظر آئیں اور اپنے ظاہری اعمال سے یہ ظاہر کریں کہ عید کی تمام خوشیاں انھیں ہی نصیب ہوتی ہیں۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ دنیا میں سب سے پہلی عید اس عظیم انسانی گروہ نے منائی تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے پہلی اسلامی جنگ غزوہ بدر میں عظیم الشان فتح عنایت فرمائی تھی۔ اسی غیبی امداد اور نصرت الٰہی کے شکرانے کے طور پر اس مقدس جماعت نے اپنے امیر کارواں حضرت محمد عربیؐ کی اقتدا میں کھلے میدان کے اندر حمد و شکر کے کلمات کے ساتھ نماز عیدالفطر ادا فرمائی تھی۔ چنانچہ اب رہتی دنیا تک یہی سادگی اور جذبۂ اطاعت الٰہی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے والے ہر مسلمان کے لیے اسوہ اور نمونہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ یہی سادگی اور حسنِ بندگی اللہ کو مطلوب ہے اور دین اسلام کا بنیادی وصف بھی یہی ہے۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ امت کا مالدار طبقہ اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو کر عید کے موقع پر اپنی دولت کی بے جا نمائش کرتا ہے۔ مہنگے ملبوسات زیب تن کیے جاتے ہیں۔ امیر گھرانے کی عورتیں قیمتی کپڑے اور زیورات کی نمائش کو اپنا بنیادی حق تصور کرتی ہیں۔ آمد عید الفطر کے موقع پر دولت کی یہ بے ہودہ نمائش کرنے والے لوگوں کو اے کاش کوئی بتاتا کہ عبداللہ کے در یتیم اور آمنہ کے لعل صلی اللہ علیہ وسلم نے غریب اور مفلس افراد کے سامنے اپنے مال و متاع کی نمائش کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ سماجی اخوت اور شخصی وقار کے معاملے میں ہمارا دین کیسی رواداری کا سبق دیتا ہے، اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو یتیم بچے کے سامنے اپنے بچوں کو بھی پیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جہاں تک عید کے دن نئے لباس زیب تن کرنے کا سوال ہے، تو اس بارے میں عبداللہ ابن عمرؓ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انھوں نے بازار سے ریشمی جبہ خریدا اور رسول اللہ کے پاس لے آئے، اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ آپ بھی اس کے ساتھ کا جبہ عیدین کے لیے خرید لیں۔ تو آپؐ نے انھیں جواب دیا، یہ ایسے شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات قطعی طور پر سمجھی جا سکتی ہے کہ عید کی خوشیوں میں سادگی، حسن اخلاق اور اکرام مسلم کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی ہم روح اسلامی کو زندہ کر سکتے ہیں۔

(مضمون نگار ’ایچ ڈی جین کالج، آرہ، بہار‘ میں صدر شعبہ اردو ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔