حق، اقتدار اور ہندوستان...میناکشی نٹراجن
سوراج کے تصور سے ہٹ کر بڑھتی مرکزیت، گرام سبھا اور نریگا جیسے عوامی حقوق کی کمزوری اور اقتدار کو منتخب طبقے تک محدود کرنے کا عمل ہندوستانی جمہوریت کو شراکت سے اطاعت کے نظام میں بدل رہا ہے

یہ سوال صرف مہاتما گاندھی کے نام کو زندہ رکھنے کا نہیں ہے۔ کوئی بھی عہد ساز شخصیت کسی اسکیم یا ادارے کے نام کی محتاج نہیں ہوتی۔ نام ہٹا دینے سے وہ مٹ نہیں جاتی۔ گاندھی جی کو اپنی زندگی میں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ وہ امر رہیں۔ یہ بحث محض کام کے حق تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ یہ ہماری بنیاد سے جڑی ہوئی بات ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کس نوعیت کا ملک تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟
آزادی کی جدوجہد کے ہیرو کسی نظام کے ماتحت ہونے کے لیے نہیں لڑے تھے۔ وہ بھی تو بالآخر آمریت ہی کی ایک شکل ہوتی۔ ان کی جدوجہد سوراج کے لیے تھی، مکمل خود مختار سوراج کے لیے۔ ایسا سوراج جہاں کسی دوسرے ملک کی حکمرانی نہ ہو، اور نہ ہی کسی ایک مذہب، ذات، خطے، جنس یا طبقے کی بالادستی باقی سب پر مسلط ہو۔ گاندھی کے نزدیک یہی سوراج کی بنیاد تھی۔ ان کے مطابق سوراج گاؤں گاؤں کی شراکت اور اجتماعی شرکت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مرکز میں بیٹھے چند افراد کے ذریعے چلائی جانے والی حکومت دراصل غلامی ہی کی ایک صورت ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں ہم نے سوراج کے بالکل برعکس منظر دیکھا ہے۔ ہر فیصلہ مرکز میں مرتکز ہو گیا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ یہ طے کرتا ہے کہ نظام کیسا ہوگا۔ مرکزیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام کی ذاتی زندگی کو روزانہ روند دیا جا رہا ہے۔ لوگ کیا پہنیں گے، کیا کھائیں گے، کون سی فلم دیکھیں گے، کس سے شادی کریں گے یا محبت کریں گے، سب کچھ اوپر سے طے ہونے لگا ہے۔
اگر کسی آدیواسی گاؤں میں جایا جائے تو وہاں کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر بات کے لیے اجازت لینی پڑتی ہے تو ہمارا حق کہاں ہے؟ مچھلی پکڑنے پر، ایندھن کے لیے لکڑی چننے پر، جنگلاتی پیداوار جمع کرنے پر، مرغی پکڑنے، پانی بھرنے، جنگل کے پٹے پر کاشت کرنے یا تاڑی جمع کرنے پر سوال اٹھتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ مہوا حکومت کا ہے، مچھلی حکومت کی ہے، چارولی حکومت کی ہے، اسکول حکومت کا ہے، تو پھر ہمارا کیا ہے؟ ہم کون ہیں؟
جب یہ احساس گاؤں گاؤں میں پھیلنے لگا تو نوّے کی دہائی میں پنچایتوں کو آئینی درجہ دیا گیا۔ اس وقت کے نوجوان وزیر اعظم یہ بات سمجھ چکے تھے کہ مکمل طور پر مرکزیت پر مبنی ڈھانچے زیادہ دن نہیں چل سکتے۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا، یورپ میں کئی وفاق بکھر کر نئی ریاستوں میں بدل رہے تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ کروڑوں آبادی کی حقیقی نمائندگی چند سو ارکانِ پارلیمان اور چند ہزار اراکینِ اسمبلی نہیں کر سکتے۔ اقتدار کا سرچشمہ گاؤں اور محلوں میں ہونا چاہیے۔ صدیوں سے حاشیے پر کھڑے طبقات اور عورتوں کو یقینی نمائندگی ملنی چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس اصلاح کی اس وقت کے موجودہ حکمران طبقے نے سخت مخالفت کی تھی اور اپنے دورِ اقتدار میں اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ بعد میں 1991 میں بننے والی مرکزی حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے اس عمل کو مکمل کیا۔ گرام سبھا کو آئینی نظام کی بنیادی اکائی کا درجہ دیا گیا۔
یہ قدم محض اقتدار کی تقسیم نہیں بلکہ اقتدار کی منتقلی کے مقصد سے اٹھایا گیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اقتدار کی تقسیم میں طاقت مرکز میں رہتی ہے، جبکہ اقتدار کی منتقلی میں مرکز خود نچلی سطح سے طاقت حاصل کرتا ہے۔ اصل میں اقتدار گاؤں گاؤں سے ابھرتا ہے اور مرکز اسے سمیٹتا ہے۔ یہ نظام غیر عملی نہیں بلکہ معاونت کے اصول پر مبنی ہوتا ہے یعنی جس طبقے پر فیصلہ سب سے زیادہ اثر ڈالے، فیصلہ بھی وہی طبقہ کرے۔ قومی دفاع مرکز میں طے ہو مگر گاؤں میں کون سا کام ضروری ہے، یہ فیصلہ گاؤں کرے۔ یہی اصل سوراج ہے۔
لیکن کارکردگی کے نام پر سوراج کے متبادل کے طور پر سُراج پیش کیا جاتا ہے۔ اگر سُراج کے نام پر فیصلے مسلط ہوں، کمزور طبقات بے دخل ہوں، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں غلامی قبول ہے، بس سب کو تابع فرمان ہونا ہوگا، جیسے سرکس کا شیر۔ جب تنوع اور شراکت کو نظر انداز کیا جا رہا ہو تو کوئی بھی نظام سُراج کیسے ہو سکتا ہے؟ اکثریت کو محروم رکھ کر دیرپا ہم آہنگی اور امن ممکن نہیں۔ ہاں، من مانی اور یکطرفہ اقتدار ضرور قائم ہو سکتا ہے۔ سُراج کے پردے میں غلامی اور چاپلوسی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے آج ہر حق کو احسان میں بدلا جا رہا ہے۔
2004 سے 2014 تک کا دور حقوق پر مبنی تھا۔ عوام کو جاننے کا حق حاصل تھا۔ اب وہ حق رازداری اور خفیہ نظام کی نذر ہو چکا ہے۔ جنگلاتی حقوق میں فیصلے گرام سبھا کو کرنے تھے، اب وہ محکموں کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ تعلیم کا حق نجی اسکول مالکان کے سامنے جھک گیا ہے۔ زمین کے حصول میں گرام سبھا کی منظوری کب کی ختم ہو چکی ہے۔ جب یہ سب ہو رہا تھا تو بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ شاید کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ مہاتما گاندھی نریگا پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، حالانکہ کووڈ کے دوران یہی اسکیم سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوئی تھی۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ یہ اقتدار کو قابو میں رکھنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
کہیں بھی سوراج باقی نہیں رہے گا۔ اقتدار گاؤں گاؤں سے نہیں چلے گا۔ اوپر بیٹھے لوگ کبھی کبھار خوش ہو کر خیرات کے طور پر چند ٹکڑے اچھال دیں گے۔ مہاتما گاندھی نریگا نے دیہی خود انحصاری کو مضبوط کیا تھا۔ گاؤں کی عورتیں یہ طے کرنے لگی تھیں کہ کون سا کام ہوگا۔ نریگا سے وابستہ خواتین کے گروپ پنچایتی انتخابات میں حصہ لینے لگے تھے اور قائم شدہ طاقت کو چیلنج کرنے لگے تھے۔ یہ سب حکمران طبقے کو گوارا نہیں تھا۔
بیلگام میں گراکس نامی تنظیم سے وابستہ نریگا مزدور خواتین کی یونین نے پورے ضلع میں سرپنچ کے عہدوں پر انتخاب جیت لیا۔ مینڈھا لیکھا گاؤں کا نعرہ، ’راجدھانی میں ہماری حکومت، گاؤں میں ہم سرکار‘— حقیقت بنتا ہوا کون دیکھنا چاہتا تھا؟ اسی لیے یہ حملہ صرف گاندھی کے نام پر نہیں ہے، نہ ہی صرف کام کے حق پر، بلکہ اس سوال پر ہے کہ ملک کس کا ہے اور اسے کیسے چلایا جائے گا — اسی پورے تصور کو بدلنے کی کوشش ہے۔
آئین ساز چاہتے تھے کہ ہندوستان سب کا ہو اور اقتدار عوام میں مضمر ہو، نمائندہ جمہوریت شراکتی جمہوریت میں تبدیل ہو۔ لیکن موجودہ اقتدار کا ڈھانچہ یکطرفہ بالادستی چاہتا ہے۔ وہ طاقت کو منتخب طبقے کے ہاتھوں میں محدود رکھنا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت یکطرفہ اقتدار کا ہی دور چل رہا ہے، اور اس کا اندازہ ہمارے قومی علامتی رویوں سے بھی ہوتا ہے۔
ستر کی دہائی میں جب معاشی اقتدار کی منتقلی بینکوں کے قومیانے کے ذریعے ہو رہی تھی، جب بے زمینوں کو زمین کے پٹے دیے جا رہے تھے، اور جب ہم دونوں عالمی طاقتوں سے الگ رہتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کی ہمت رکھتے تھے — یعنی عالمی سطح پر بھی مرکزیت کے خلاف کھڑے تھے — تب ہماری سڑکوں کے نام انقلابیوں کی یاد میں رکھے جاتے تھے۔ ہو چی من، ٹیٹو جیسے نام آج بھی کئی سڑکوں پر موجود ہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ جو امریکی صدر ہم پر ٹیرف مسلط کرتے ہیں، جو ہمیں سرزنش کرتے ہیں اور بالادستی قائم کرتے ہیں، انہی کے نام پر بعض شہروں میں سڑکیں بنائی جا رہی ہیں۔
یہ ہماری سیاست کا آئینہ ہے۔ اب ہم نمائندے نہیں بلکہ حکمران چنتے ہیں۔ ہر نمائندہ خود کو محض ایک نفاذی ایجنسی سمجھنے لگا ہے۔ عوام کو ایک ہجوم میں بدل دیا جا رہا ہے، تاکہ وہ تماشائی بن کر حکمرانوں کو طاقت کا مظاہرہ کرتے دیکھیں، تالی اور تھالی بجاتے رہیں، اور اپنے حقوق کو احسان میں بدلتے دیکھ کر بھی خاموش رہیں۔ مگر عوامی شعور کو اتنا کمزور سمجھنا بھی ایک بڑی غلطی ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔