اسے ’شانتی‘ کہا جائے یا مکمل خود سپردگی... ہرجندر

نیوکلیائی توانائی سے متعلق بل میں تبدیلی کا عوامی تحفظ، اسٹریٹجک خود مختاری اور جمہوری جوابدہی پر خاطر خواہ اثر دیکھنے کو ملے گا۔

<div class="paragraphs"><p>شانتی بل 2025، تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/DrJitendraSingh">@DrJitendraSingh</a></p></div>
i
user

ہرجندر

زبان کا کھیل کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت ایسے الفاظ تیار کرنے میں مصروف ہے جن سے ترقی اور حب الوطنی جھلکے اور تلخ حقیقت پسِ پشت چھپ جائے۔ زبان کا ایسا ہی نیا کھیل ہے ’شانتی‘ (ایس ایچ اے این ٹی اے) یعنی ’سسٹین ایبل ہارنیسنگ اینڈ ایڈوانسمنٹ آف نیوکلیئر انرجی فار ٹرانسفارمنگ انڈیا‘۔

اس بل کا یہ پیچیدہ نام ملک میں جوہری توانائی کی ترقی کی راہ ہموار کرنے اور ساتھ ہی ہندوستان کے جوہری ذمہ داری کے نظام کو پوری طرح بدلنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس میں کی گئی تبدیلیوں کا عوامی تحفظ، اسٹریٹجک خود مختاری اور جمہوری جوابدہی پر خاصا اثر ہوگا۔ یہ حکومت کے اس دوغلے پن کو بھی بے نقاب کرتا ہے جس میں ملک کی خود مختاری کے بارے میں پہلے دعوے کچھ اور تھے اور کچھ الگ ہی کیا گیا۔ اس بل کا امریکہ کی جانب سے جس طرح خیرمقدم کیا گیا، وہ بتاتا ہے کہ امریکی حکومت کے لیے ان تبدیلیوں کی کیا اہمیت ہے۔


عوام اور پارلیمانی نظام کو جائزے کا پورا موقع دیے بغیر، غیر معمولی عجلت دکھاتے ہوئے منظور کیے گئے ’شانتی بل‘ نے اس پرانے قانون کو کنارے لگا دیا جس میں جوہری حادثے کی صورت میں متاثرین کو تحفظ دینے کی مضبوط دفعات تھیں۔ یہ بل 10 دسمبر کو سرمائی اجلاس کے دوران اچانک ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی، سلیکٹ کمیٹی یا قائمہ کمیٹی جیسے ان اداروں کے پاس بھیجنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی جو پیچیدہ معاملات کے گہرے جائزے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ صرف 10 دنوں میں یہ دونوں ایوانوں سے منظور ہو گیا اور صدر کے دستخط بھی ہو گئے۔ 22 دسمبر کو اس تعلق سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

اتنی تیزی کیوں دکھائی گئی؟ کیا اس کا مقصد ملک کی اپوزیشن کو زیر کرنا تھا یا پھر ملک کی منڈی پر نظریں جمائے بے چین جوہری تاجروں کو یقین دہانی کرانا تھا؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں 2010 کے اس ’سول لائیبلٹی فار نیوکلیئر ڈیمیج قانون‘ پر نظر ڈالنی ہوگی جسے ’شانتی‘ نے ختم کر دیا ہے۔


وہ قانون 1984 کے بھوپال گیس سانحے کے تجربات کا نتیجہ تھا، جس صنعتی حادثے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں زہریلی گیس کا شکار بنے تھے۔ بچ جانے والے ان لوگوں نے اس کثیر القومی کمپنی کے خلاف دہائیوں تک طویل جدوجہد کی، لیکن کمپنی خود کو ذمہ داری سے بچانے میں کامیاب رہی۔ انہی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے 2010 کے قانون میں ایک اخلاقی مقصد شامل تھا۔ یہ کوشش تھی کہ جوہری حادثے کی صورت میں کوئی بھی ذمہ داری سے نہ بچ سکے۔

یہ قانون صرف پلانٹ کے آپریٹر پر ہی مکمل ذمہ داری عائد نہیں کرتا تھا بلکہ اسے سپلائرز تک بڑھاتا تھا۔ سپلائرز میں امریکہ کی جنرل الیکٹرک اور ویسٹنگ ہاؤس، روس کی روزاٹوم اور فرانس کی اورانو جیسی کمپنیاں شامل ہو سکتی ہیں جو ری ایکٹرز اور دیگر آلات سے لے کر ایندھن اور ٹیکنالوجی تک فراہم کرتی ہیں۔ اس کی دفعہ 17 بی آپریٹر کو یہ حق دیتی ہے کہ اگر حادثہ ناقص آلات یا مواد کی وجہ سے ہو تو وہ سپلائر سے معاوضہ حاصل کر سکے۔


روس اور فرانس نے اسی قانون کے تحت ہندوستان کے ساتھ معاہدے کیے۔ روس تمل ناڈو کے کڈنکلم جوہری پلانٹ میں شراکت دار ہے، جس کے 2 مرحلے مکمل ہو چکے ہیں اور تیسرے پر کام جاری ہے۔ فرانس نے مہاراشٹر کے جیتاپور میں پلانٹ لگانے کے لیے معاہدہ کیا ہے، جہاں مقامی مخالفت کے باوجود کام شروع ہو چکا ہے۔

دونوں ہی ممالک نے ذمہ داری سے متعلق خدشات کے حل کے لیے انشورنس پول اور باہمی معاہدوں کا راستہ اپنایا ہے۔ لیکن امریکی کمپنیاں قانونی پیچیدگیوں سے بچنا چاہتی ہیں، اس لیے وہ تبدیلیاں چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 کے تاریخی ہند-امریکہ سول جوہری معاہدے کے باوجود بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ متعدد رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے مختلف طرح کے سفارتی دباؤ بھی ڈالے گئے کہ اس دفعہ کو ختم کیا جائے۔ یہ دلیل بھی دی گئی کہ ’سول لائیبلٹی فار نیوکلیئر ڈیمیج‘ کے ویانا کنونشن کے مطابق بھی یہ درست نہیں ہے۔


شانتی-2025 سپلائر کی ذمہ داری کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے اور ساری ذمہ داری پلانٹ کے آپریٹر پر ہی ڈال دیتا ہے۔ اب سپلائر کی ذمہ داری صرف اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق ہوگی۔ ظاہر ہے کہ حادثے کی صورت میں اس پر کوئی قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ ہم 1986 کے چرنوبل اور 2011 کے فوکوشیما حادثات میں دیکھ چکے ہیں کہ ہزاروں لوگ متاثر ہوئے، انہیں بے گھر ہونا پڑا اور شدید معاشی نقصان ہوا۔ اگر کسی ناقص آلے یا مواد کی وجہ سے حادثہ ہوتا ہے تو یہ سارے اخراجات حکومت کو ہی برداشت کرنے ہوں گے، یعنی عوام کی جیب سے ہی جائیں گے۔ اس کے علاوہ ذمہ داری کے طور پر طے کی گئی رقم مضحکہ خیز لگتی ہے۔ چھوٹے تحقیقی ری ایکٹر کے لیے 100 کروڑ روپے اور بڑے بجلی گھروں کے لیے 1500 کروڑ روپے۔ 2010 کے قانون میں بھی یہی رقم تھی۔ اس پر مہنگائی کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ حکومت نے اس کی کوئی وضاحت بھی نہیں دی۔

’شانتی‘ قانون ایک اور پرانی حد کو توڑتے ہوئے جوہری شعبے کو نجی صنعتوں کے لیے کھول رہا ہے۔ کانگریس سے لے کر علاقائی پارٹیوں تک پوری اپوزیشن نے خبردار کیا ہے کہ اس حساس اور خطرناک صنعت میں نجی منافع کی دوڑ شامل کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ دہائیوں سے ہندوستان کا جوہری پروگرام 1962 کے جوہری توانائی قانون کے تحت چلتا رہا ہے، جسے کاروباری بنانے سے اسی لیے دور رکھا گیا تھا۔ کسی بڑے مباحثے کے بغیر پرائیویٹ شعبے اور غیر ملکی کمپنیوں کو اس میں داخلے کی اجازت دینا ٹیکنالوجی کے لیک ہونے اور سلامتی دونوں حوالوں سے خطرناک ہو سکتا ہے۔


اس پالیسی تبدیلی میں فروخت کنندگان پر انحصار کے ذریعے توسیع کی حکمت عملی نظر آتی ہے۔ یہ ان غیر ملکی سپلائرز کی حمایت کرتی ہے جو تیار شدہ ری ایکٹر لے کر آئیں گے، بجائے اس کے کہ ہندوستان کی ضروریات کے مطابق ایسے ری ایکٹر تیار کیے جائیں جیسی کوشش بھابھا ایٹمی تحقیقی ادارے نے کی تھی۔

المیہ یہ ہے کہ بی جے پی جو کہتی رہی ہے، اس کے بالکل برعکس کر رہی ہے۔ 2008 میں جب جوہری معاہدہ ہو رہا تھا، اس وقت پارٹی اپوزیشن میں تھی اور اس نے اسے قومی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے سخت مخالفت کی تھی۔ اس وقت اس کے تین دلائل تھے… خودمختاری کو نقصان، اسٹریٹجک خود مختاری میں نرمی اور سیاسی طور پر غیر منصفانہ ہونا۔ مخالفت محض علامتی نہیں تھی، اس سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران اتنا سنگین تھا کہ یو پی اے حکومت گر سکتی تھی۔ وہی پارٹی اب 17 سال بعد مخالفت کے باوجود پارلیمنٹ میں ’شانتی‘ کو منظور کرا رہی ہے۔ اس الٹی چال کا کیا مطلب ہے؟ سپلائرز کی ذمہ داری ختم کرنا غیر ملکی اور خاص طور پر امریکی کمپنیوں کے دباؤ میں جھکنا نہیں تو اور کیا ہے؟ جمہوری طور پر اسے کیسے منصفانہ کہا جا سکتا ہے، جب اتنی بڑی تبدیلی بغیر مباحثے، بغیر جائزے اور بغیر اتفاقِ رائے کے کی جا رہی ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔