کہاں ہے حد، اور کس کی خواہش اس حد میں بندھنے کی ہوگی؟... میناکشی نٹراجن
ہندوستان اور پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کے گانے خوب سنے جاتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں انٹرنیٹ کی مدد سے لوگوں کو ان کے پشتینی گاؤں کا دیدار کراتے ہیں۔

حال کے کچھ واقعات میں مختلف ممالک کے حکمرانوں کی ذہنیت کا اظہار ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے لوگ امریکہ سے ہتھکڑیوں میں بھیجے گئے۔ گزشتہ ہفتہ امریکہ کے پنسلوانیا صوبہ کی عدالت نے 43 سال کی قید کاٹنے کے بعد ایک ہندوستانی نژاد شخص کو قتل کے معاملہ میں بے قصور قرار دیا۔ ان پر منشیات کے لین دین کا مقدمہ سالوں پہلے قائم ہوا تھا، جو ثابت نہیں ہوا۔ اب وہ ملک بدر ہو کر ہندوستان بھیجے جانے والے ہیں۔ ایک شخص جو 9 ماہ کی عمر سے ہی امریکہ میں رہا ہے، پورا خاندان وہیں رہتا ہے، اب وہ ایک ایسی سرزمین پر رہنے پر مجبور ہوگا جہاں وہ کبھی نہیں رہا۔
ہمارے اپنے ملک میں غریب طبقہ کے کئی خاندان ایسی ہجرت برداشت کر رہے ہیں۔ ممبئی کا ایک خاندان اپنے والد سے الگ کر دیا گیا۔ انہیں کافی جسمانی اذیت دینے کے بعد دھتکار کر بنگلہ دیش بھیج دیا گیا، جہاں کوئی ان کو اپنانا نہیں چاہتا، کیونکہ ان کا وہاں کوئی نہیں ہے۔ وہ 10 سال کی عمر سے ہندوستان میں ہیں۔ ان کی بیٹیاں، بیوی سب انتہائی بے بس محسوس کرتی ہیں۔ حاشیہ سے باہر ہونے کے باعث ان پر تو کوئی خبر بھی نہیں لکھی جاتی۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر یہ کیسی انسانی تہذیب ہے کہ ہم کسی کا آشیانہ چھین کر اسے حب الوطنی کا نام دیتے ہیں۔
حکمران اورسینی کو ہوائی اڈے سے ہی واپس لوٹاتے ہیں، تو لوٹایا کریں۔ حکمرانوں کے ان تمام پہروں سے پرے عوام نے اپنی روایت بنائی ہے۔ ڈاکٹر روپل یورپی ہیں اور کیمبرج کی استاد ہیں۔ کئی ممالک کے غیر ہندوستانی اور ہندوستانی نژاد غیر ہندی بولنے والے بھی ان سے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔ 111 ممالک کے طلبا آن لائن سنسکرت سیکھتے ہیں۔ اس آن لائن کلاس میں جستجو کی کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ کوئی اسے بند نہیں کرتا۔ نیٹ کی دنیا پر پہرہ لگانا حکمرانوں کو ابھی تک آتا نہیں۔ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں لینی پڑتی۔ خود اسکول میں پڑھنے کے باوجود اتنی گہرائی سے صرف و نحو کی میری سمجھ پہلی بار بنی۔ اس سنسکرت کلاس میں کئی مسلم طلبا ہیں، تمل بولنے والے ہیں، کلاسیکی زبان لاطینی، یونانی میں دلچسپی رکھنے والے ماہرِ لسانیات ہیں۔ سب پورے جوش کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ تنگ نظر بحث میں کوئی نہیں الجھتا کہ سنسکرت کہاں سب سے پہلے بولی گئی، کب سے دیوناگری میں لکھی جانے لگی۔ لسانی اختلاف سے ہٹ کر، سائنسی بنیاد پر زبان کے سفر کا مطالعہ ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح پاننی سے آج تک اس زبان نے خود کو سنوارا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کی سوچ سے الگ زبان کو کسی خاص مذہب، ذات، ملک یا تہذیب کے غرور کا سوال نہیں بنایا جاتا۔ اس سے کسی کی خود مختاری قائم نہیں کی جاتی۔ بغیر ملک بدری کے ہزاروں سال سے چلی آ رہی زبان کو سمجھا جاتا ہے، ایک غیر ہندوستانی نژاد استاد کے ساتھ۔ وہ ہفتہ میں 2 بار متعدد ممالک کے طلبا کو درس دیتی ہیں، انٹرنیٹ کی کھڑکی سے داخل ہوتی ہیں، زبان کو تمام زنجیروں سے آزاد کرتی ہیں۔ گویا کہ علم کے پرندے سرحد پار کر جاتے ہیں، زبان کو علاقائی دائرے سے آزاد کرتے ہیں، نسلی برتری سے بے خوف کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ جستجو رکھنے والے طالب علم یورپ کے محمد اپنی گہرائی سے سب کو حیران کرتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی تجربہ رنگ منچ کا دیکھا گیا۔ سیواگرام میں خواتین کی ورکشاپ میں مظلوموں کا تھیٹر ایک نیا طرز ہے۔ جنوبی امریکہ کے برازیل سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، جہاں عصری مسائل پر بہت چھوٹے چھوٹے مناظر پیش کیے جاتے ہیں۔ پھر تھیٹر میں فیصلہ کن منظر پر سب منجمد ہو جاتے ہیں۔ راوی ناظرین سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ منظر میں دکھائے گئے ظلم کو بدلنا چاہتے ہیں۔ تب ان میں سے باری باری کوئی آ کر مکالمے کے ذریعہ اپنی طرف سے تبدیلی پیش کرتا ہے۔ اس طرح یہ ڈرامائی طرز شراکتی بن جاتا ہے، جہاں صرف کوئی تالیاں نہیں بجاتا، نہ ہی خاموش تماشائی ہوتا ہے۔ وہ بھی تبدیلی کا راہی ہوتا ہے۔ یہ تجربہ ملک کے کسی بھی علاقے میں بغیر لسانی یکسانیت کے بھی چلتا ہے، میں نے اسے مؤثر ہوتے خود دیکھا ہے۔ دور دراز چائباسا کے قبائلی گاؤں میں، گڑھ چرولی میں، کبھی کیرالہ میں اور کبھی دہلی میں اس کا حصہ بن کر دیکھا ہے۔
گزشتہ ہفتہ 50 خواتین کے کیمپ کی شرکاء نے ایک کھلے غذائی مرکز میں نیا تجربہ کیا۔ انہوں نے حاشیہ پر دھکیلے گئے طبقات کے شاعروں کے اشعار کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ ’ا‘ سے ’ادھیکار‘ کی نظم تھی، تو ’چلو کچھ بن جائیں‘ بھی تھی۔ ’چلو کچھ بن جائیں‘ میں کچھ خواتین میدان، پہاڑ تو بنیں ہی، جیسا نظم میں ہے، لیکن روشنی اور پرندہ بننے کی بھی خواہش تھی۔ آخر کون حد میں بندھنا چاہے گا۔ عوام ملک بدر نہیں ہونا چاہتی۔ خاموش رہ جاتی ہے، اسی کو یہ برازیلی روایت چیلنج دیتی ہے۔ خاموشی کو توڑنا سکھاتی ہے۔
ڈرامے میں مظلوموں کو اسٹیج کیا گیا۔ ایک منظر میں گھریلو ملازمہ عورت کو اس کا بیٹا کہتا ہے کہ اس کے دیر رات تک کام کرنے سے سماج میں ناک کٹ گئی۔ جب اس منظر پر تماشائیوں میں سے ایک لڑکی آئی، تو اس نے ماحول ہلا دیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ سب کی ناک تو جمی ہے۔ کٹی کہاں؟ یاد آیا کہ صدیوں سے جس کی ناک کاٹی گئی، اسی پر ناک کاٹنے کا الزام لگتا ہے۔
یہ نیا تھیٹر کلچر اس کو توڑ رہا ہے۔ سرحدیں پار کرتا ہوا برازیل سے یہاں اور ہر جگہ پھیل رہا ہے۔ رات لوٹی تو گھر میں ماں ترکی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں، بغیر ملک بدری کے۔ کردار آ رہے تھے، جا رہے تھے بے روک ٹوک۔ جب حکمراں میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کر رہے تھے، تب کچھ تنظیموں نے سرحد پر جھولا لگایا، تاکہ بچے سرحد کے آر پار جھول سکیں۔ ادھر، ہندوستان و پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کے گانے خوب سنے جاتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں انٹرنیٹ کی مدد سے لوگوں کو ان کے آبائی گاؤں کا دیدار کراتی ہیں۔ ان لوگوں کو جو ایک دوسرے ملک میں تقسیم کے باعث ہجرت کو مجبور ہوئے، بغیر ملک بدری کے۔