’جو چلے گئے وہ آزاد ہو گئے‘ کہنے کی ہمت کہاں سے لاتے ہیں موہن بھاگوت؟

کورونا وبا میں اپنوں سے محروم ہو جانے والوں کے غم پر ان سے ہمدردی ظاہر کرنے والے موہن بھاگوت ایک ہی سانس میں یہ کہنے کی ہمت کہاں سے لے آئے کہ ’’جو چلے گئے وہ تو ایک طرح سے مُکت ہو گئے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مشاہد رفعت

ویڈیو پیغام میں موہن بھاگوت نے اپنی بات کی شروعات ان لوگوں کے تئیں ہمدردی ظاہر کرنے کی کوشش سے کی جو کورونا وبا میں اپنوں سے محروم ہو گئے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ غم ہمدردی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پھر جیسے اچانک انھوں نے اپنے اوپر سے ایک خول اتار پھینکا اور اسی جملے کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے ’’اپنے لوگ چلے گئے ان کو ایسے بے وقت چلے جانا نہیں تھا۔ لیکن اب گئے، اب تو کچھ نہیں کر سکتے۔ اب جو حالات ہیں اس میں ہم ہیں۔ اور جو چلے گئے وہ تو ایک طرح سے مُکت (آزاد) ہو گئے، ان کو اس حالت کا سامنا اب نہیں کرنا ہے۔ ہم کو کرنا ہے۔‘‘

ذرا سوچیے موہن بھاگوت اس ملک کی عوام کو مُکتی (آزادی) کا یہ کون سا نیا سبق پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا سچ مچ بغیر دواؤں اور بغیر آکسیجن کے تڑپ تڑپ کر مر جانا مُکت ہو جانا ہے؟ اگر مر جانا ہی مُکتی ہے تو پھر مُکت ہونے کا اس سے آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے بھلا؟ پھر تو گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان لینے والا ہر شخص مُکت ہو جاتا ہوگا۔ راہ چلتے کسی خونی کے ہاتھوں جان گنوا دینے والے سارے لوگ بھی مُکت ہو چکے ہوں گے۔ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہزاروں بے قصوروں کو بھی مُکتی حاصل ہو چکی ہوگی۔ صاف ہے کہ مُکتی کا یہ بھاگوتی نظریہ نہ صرف غلط ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ جس ملک میں کروں لوگوں کی عقیدت یہی ہے کہ جب تک سبھی رسموں کو نبھاتے ہوئے صیح طریقے سے آخری رسومات ادا نہ کی جائیں تب تک مرنے والے کی روح کو مُکتی نہیں ملتی، وہاں گنگا میں بہتی اَدھ جلی لاشیں مُکتی کا اشارہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ اور ہاں، مغفرت یا سیلویشن بھی کسی طرح بھاگوت کے اس جملے کے دائرے میں نہیں آتے۔


دراصل بھاگوت کا ویڈیو پیغام ایک ایسا ملٹی لیئر سینڈوِچ تھا جس میں بیچ بیچ میں کچھ اچھے جملے بُرک دیے گئے ہوں۔ وبا میں مرنے والوں کے مُکت ہو جانے کی عجیب بات کہنے کے بعد موہن بھاگوت من کو پازیٹو اور جسم کو کورونا نگیٹو رکھنے کی ’پنچ لائن‘ سے کام چلاتے ہوئے آگے بڑھے۔ مگر پھر وہ ایک ایسا جملہ استعمال کر گئے جو دل میں تیر کی طرح جا چبھا۔ انھوں نے کہا ’’یہ روز دس پانچ نامعلوم لوگوں کے جانے کی خبر کا سننا، میڈیا کے ذریعہ حالات بہت خراب ہے، خراب ہے، اس کا اعلان لگاتار سننا، یہ ہمارے من کو مایوس کر دے گا؟ سخت بنائے گا؟ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا ہونے سے تباہی ہوتی ہے۔‘‘

اب ذرا بھاگوت کے ان مشکل الفاظ کو آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ نہ تو دس پانچ انجان لوگوں کے مر جانے کی خبر سن کر مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی میڈیا پر وبا کی تباہی کے بارے میں سن کر۔ ذرا سوچیے کہ روزانہ جن دس پانچ لوگوں کے مرنے کی خبر ہمیں اور آپ کو مل رہی ہے وہ کیا سچ مچ ہمارے لیے انجان ہیں۔ بالکل نہیں۔ ان دس پانچ لوگوں کی خبر نام و پتے کے ساتھ ہم تک اسی لیے پہنچ رہی ہے کہ ہم انھیں جانتے ہیں۔ اور نہ بھی جانتے ہوں تو کیا ایسی خبروں سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ چھوڑیے دس پانچ لوگوں کو، بھاگوت سے پوچھنا چاہیے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روزانہ تقریباً چار ہزار لوگوں کے مرنے پر من اُداس ہونا چاہیے یا نہیں؟ یا صرف حکومت کی شبیہ بچانے کے لیے چلائی جا رہی کسی ’پازیٹیویٹی مہم‘ کی وجہ سے لوگوں کی موت کی خبروں پر مایوس ہونا چھوڑ دیں، پازیٹو ہو جائیں؟ یہ کون سی پازیٹیویٹی کا پیغام دے رہے ہیں بھاگوت؟


موہن بھاگوت کے الفاظ کی بے رحمی یہیں ختم نہیں ہوتی، وہ آگے کہتے ہیں ’’انسان ایک نہ ایک دن جیسے پرانے کپڑے چھوڑ کر نئے کپڑے بدلتا ہے، ویسے پرانا جسم ناقابل استعمال ہو گیا اس کو چھوڑ دیتا دوسرے جنم میں آگے بڑھنے کے لیے نیا جسم اختیار کر کے آتا ہے۔‘‘ ایک تو یہ کہ دوسرے جنم والی سوچ سبھی پر نافذ نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو کیا کورونا میں علاج کی عدم دستیابی سے مرنے والے لوگوں کا ’پرانا جسم ناقابل استعمال‘ ہونے کی وجہ سے ان کی جان گئی۔ بھاگوت کی مانیں تو کسی کے والد، کسی کی ماں، کسی کے شوہر، کسی کی بیوی، کسی کے جوان بیٹے-بیٹی کا جسم ناقابل استعمال ہو گیا تھا، اس لیے اس نے جسم تیاگ (چھوڑ) دیا۔ کیا سچ مچ؟ کیا اعداد و شمار میں درج تقریباً ڈھائی لاکھ جسم ناقابل استعمال ہو گئے تھے؟

بھلے ہی کچھ لوگ بھاگوت کے اس طویل بیان سے ’عوام، حکومت اور انتظامیہ کی غفلت‘ والی لائن اٹھا کر سرخیاں بنا رہے ہوں، لیکن سچ یہ ہے کہ بھاگوت نے حکومت کی کوئی تنقید نہیں کی بلکہ انھوں نے حکومت سے پہلے عوام کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے لفظوں کی کرونولوجی پر دھیان دیں گے تو یہ بات صاف طور پر سامنے آ جائے گی۔ وہ کہتے ہیں ’’پہلی لہر آنے کے بعد ہم سب لوگ ذرا غفلت میں آ گئے۔ کیا عوام، کیا حکومت، کیا انتظامیہ! معلوم تھا، ڈاکٹر لوگ اشارہ دے رہے تھے، پھر بھی تھوڑی غفلت میں آ گئے۔ اس لیے یہ بحران کھڑا ہوا۔‘‘ بھاگوت بڑی سمجھداری دکھاتے ہوئے انتظامیہ یعنی حکومت سے پہلے عوام کی غفلت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار ’ذرا غفلت میں آ گئے‘ اور ’تھوڑی غفلت میں آ گئے‘ کہتے ہیں۔ بھاگوت کو نہیں لگتا کہ حکومت نے زیادہ غفلت کی۔ وہ حکومت کو تنقید سے بچانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’خامی اور خوبی کی بحث کو ابھی روک کر... اس کے لیے بعد میں وقت ملے گا۔‘‘ دراصل بھاگوت کی یہ بات اسی سوچ کا پارٹ-2 ہے جس میں حکومت کی جوابدہی طے کرنے کی جگہ ’سسٹم‘ کے سر ٹھیکرا پھوڑا گیا تھا۔ اس بار اسی طرز پر رَٹ لگائی جا رہی ہے کہ یہ وقت کسی کو قصوروار ٹھہرانے اور خامیاں نکالنے کا نہیں ہے۔


بہر حال، ڈھیر ساری غیر سائنسی باتیں کرنے کے بعد موہن بھاگوت ماسک لگانے کی مہارت سے لے کر ورزش، غذا، صاف صفائی پر دھیان جیسی سائنسی باتیں بھی کرتے سنائی دیے۔ لیکن اس کے فوراً بعد وہ پھر سے اپنے اصل کام پر لوٹ آئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’کچھ لوگ کورونا کا پازیٹو ہونا بڑی بدنامی مان کر چھپا کر رکھتے ہیں، جلدی علاج نہیں کراتے۔ اسپتال میں جو ماحول رہتا ہے اس کے خوف سے ایڈمٹ ہونے میں آنا کانی بھی کرتے ہیں۔ اور دوسرا سرا یعنی خوف کے سبب غیر ضروری علاج کرتے ہیں، بلاسبب ایڈمٹ ہوتے ہیں، تب یہ ہوتا ہے کہ جس کو واقعی معنوں میں علاج کی ضرورت ہے اس کی جگہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس کو بیڈ نہیں مل پاتا۔‘‘ یہاں بھاگوت کورونا کے بارے میں اس طرح بات کرتے ہیں جیسے جنسی امراض کا تذکرہ کر رہے ہوں، جنھیں اکثر لوگ بدنامی کے خوف سے چھپایا کرتے ہیں۔ کیا سچ مچ کہیں ایسا ہوا ہوگا کہ کورونا کے کسی مریض نے بدنامی کے خوف سے یا اسپتال کے ماحول کے خوف سے اپنی بیماری چھپا لی ہو؟ کیا کورونا کی بیماری چھپائی بھی جا سکتی ہے؟ کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ موہن بھاگوت کا یہ الزام کس طرح کے سائنس پر مبنی ہے؟ اور ہاں، س بات کو دوسرے حصے میں بھاگوت اسپتالوں میں بیڈ کی کمی کے لیے ایسے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جو بلاضرورت ہی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ جس دور میں سنگین مریضوں کو اسپتال میں بیڈ نہیں مل رہا ہے، تب اگر لوگ بغیر وجہ اسپتال میں بھرتی ہو جا رہے ہیں تو یہ کس کی غلطی ہے؟ موہن بھاگوت اس سوال کو بائپاس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

خیر، ڈھیر سارا علم ظاہر کرنے کے بعد بھاگوت یہ بتانا نہیں بھولتے کہ موجودہ حالات کا اثر آنے والے دنوں میں معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس سے بچنے کی ترکیبوں میں سے ایک عجیب ترکیب جو انھوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ پانی ٹھنڈا کرنے کی مشین (یعنی فریج) کی جگہ ہمیں مٹکا خرید لینا چاہیے تاکہ مٹکا بنانے والے کو بھی روٹی مل سکے۔ رکشہ چلانے والوں کے لیے کیا کچھ کیا جانا چاہیے، یہ بتانا انھوں نے مناسب نہیں سمجھا۔


بیچ بیچ میں کبھی ونسٹل چرچل اور کبھی ہیڈگیوار سے انسیت و محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں موہن بھاگوت نے وہ کر ڈالا جس کی ان سے آر ایس ایس میں بھی کسی ے امید نہ کی ہوگی۔ انھوں نے ڈاکٹر علامہ اقبال کے ’ترانۂ ہندی‘ کا ایک شیر پڑھا ’’یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے، کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری‘‘۔ حالانکہ بھاگوت نے شیر کے مصرعے کچھ الٹ پلٹ کر دیے مگر بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر علامہ اقبال کے لکھے ترانے سے پرہیز نہیں کیا۔ وہی ڈاکٹر اقبال جن کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ سے بھاگوت کی ٹولی کے لوگ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 May 2021, 7:11 PM