بیچارے فلسطینی جائیں تو جائیں کہاں!

بیچارے فلسطینی جائیں تو جائیں کہاں! آگے موت، پیچھے کھائی، آسمان سے قہر کی بارش اور زمین قبرستان۔ بموں کی بارش سے ادھ مرے ہو کر اسپتال پہنچے تو وہاں قیامت کا سامنا

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

ظفر آغا

بیچارے فلسطینی جائیں تو جائیں کہاں! آگے موت، پیچھے کھائی، آسمان سے قہر کی بارش اور زمین قبرستان۔ بموں کی بارش سے ادھ مرے ہو کر اسپتال پہنچے تو وہاں قیامت کا سامنا۔ یہی تو ہوا الشفا اسپتال میں۔ دوا و علاج نہیں، ملا تو بس موت کا رقعہ۔ سینکڑوں بے موت مارے گئے۔ اب کیا کریں! شاید عرب حکومتیں کچھ مدد فرما دیں۔ کہیں سے رحم کی بارش ہو جائے۔ وہ بھی نہیں۔ اے خدا تو بڑا کار فرما ہے، تو ہی مدد فرما۔ وہاں بھی سناٹا۔ الغرض موت، موت اور موت ہی مقدور، سو وہ حاضر ہے۔ مگر ایک دو روز کا معاملہ ہو تو چلو مقدر سمجھ کر صبر کر لیں، یہاں تو یہ روز کا سودا ہے۔

جی ہاں، فلسطینی سنہ 1949 سے اب تک موت کی قربانی دیے جا رہا ہے۔ ہوا یوں کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب عالمی سیاست کا الگ روپ بدلا تو اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے وزیر بالفر نے یہودیوں کے لیے ایک ریاست قائم کیے جانے کا ایک مسودہ پیش کیا جو چرچل نے منظور کر لیا۔ جس کا نام بالفر ریزولیوشن پڑ گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ خیر، اللہ اللہ خیر صلّا۔


لیکن قسمت کے مارے کچھ ہی برسوں میں ساری دنیا پر عالمی جنگ کی شکل میں ایک اور قیامت ٹوٹی۔ ہوا یوں کہ حاکم جرمنی ہٹلر نے دنیا پر قبضہ کرنے کی غرض سے جنگ عظیم شروع کر دی۔ ساری دنیا اس کے ڈر سے کانپ اٹھی۔ خود جرمنی کے اندر وہاں کی یہودی آبادی ہٹلر کے ستم کا شکار ہوئی۔ یوں تو ساری دنیا خصوصاً یورپ میں یہودیوں سے نفرت کا بازار گرم تھا۔ ہٹلر نے اسی نفرت کو جرمنی میں سیاسی شکل دے لاکھوں یہودیوں کو موت کے منھ میں ڈھکیل دیا۔ اس کی فوج نے جگہ جگہ گیس چیمبر بنائے اور یہودی مرد، عورت اور بچوں کو لا کر اس میں بند کر زہریلی گیس چھوڑ دی۔ سینکڑوں یہودی لقمہ اجل ہو گئے۔ اس طرح ہٹلر کی جرمنی میں یہودیوں کی منظم نسل کشی ہوئی جس پر یورپ شروع میں تو خاموش رہا، لیکن جب جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا بھر میں یہودیوں کے لیے ہمدردی کا سیلاب بہہ نکلا۔

جناب، یہودی تو پھر یہودی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ ماہر تاجر قوم ہے۔ اس ہمدردی کا بھی اس نے سودا کر ڈالا۔ بس یہودیوں نے خون بہا کی قیمت ایک یہودی ریاست کی قیام رکھ دی۔ ویسے تو اس وقت تک برطانیہ کے کس بل ڈھیلے پڑ چکے تھے، پھر بھی مرا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ابھی بھی برطانیہ عالمی امور پر بھاری تھا۔


لیجیے، دیکھتے دیکھتے ایک یہودی ریاست کا خاکہ تیار ہو گیا۔ دنیا بھر کی زیادہ تر ریاستوں نے یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا۔ محض اسلامی ممالک اور خصوصاً عرب ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ سبب یہ ٹھہرا کہ فلسطین کو بانٹ کر اسرائیل قائم کر دیا گیا۔ اس طرح یہودی اور فلسطینی آپس میں لڑ بیٹھے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ مگر صاحب، تب سے آج تک وہ جنگ جاری و ساری ہے۔ کبھی کھل کر تو کبھی چوری چھپے اسرائیل اپنی تسلیم شدہ سرحد کو بڑھا کر فلسطینیوں کو وطن بدر کر رہا ہے۔ اب جو فلسطینیوں کے پاس زمین بچی ہے وہ ہے غزہ پٹی اور دریا اردن کا ایک کنارہ۔ دریا اردن کی اتھارٹی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ محض غزہ پٹی کے فلسطینی اسرائیل کو اب بھی تسلیم کرنے کو راضی نہیں۔ ان دنوں جو غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج نے غیض و غضب ڈھا رکھا ہے، وہ اسی بات کی سزا ہے کہ مٹھی بھر لاچار فلسطینیوں کی یہ مجال کہ وہ اسرائیل کو آنکھیں دکھائیں اور اپنی ریاست کا خواب تعبیر کرنے کی جرأت کریں۔

اب حالات یہ ہیں کہ غزہ پتی پر اسرائیل کا قہر جاری ہے۔ تقریباً ساری دنیا اس قیامت کو خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے، بلکہ امریکہ اور اس کے حامی اسرائیل کی کھلے بندوں پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کہنے کو کبھی ہائے ہائے کی صدا لگا رہا ہے۔ غضب تو یہ ہے کہ تقریباً تمام عالم اسلام اس تماشہ کو تماش بین بن دیکھ رہا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنے ہم مذہب و ہم زبان سے امید تھی، سو وہ بھی جاتی رہی۔ کہاں کا اسلام اور کہاں کی زبان۔ ان عربی کو کسی کا پاس نہیں۔ بس یہی فرق ہے یہودیوں اور فلسطینیوں میں۔ یہودی کو دنیا کے تقریباً تمام دولت مند و طاقتور ملک کی پشت پناہی ہے، تو فلسطینیوں کے لیے اسلامی ممالک کی زبانی فضول خرچی۔ اس کا حشر تو وہی ہونا تھا جو غزہ پٹی میں ہو رہا ہے۔ مرحبا فلسطینیوں پر کہ اپنی آزادی کی قیمت اپنے خون سے چکانے کو اب بھی تیار ہے۔ بس یہ وہ عمل ہے جو طاقتور قوموں کو پریشان کر دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جذبہ آزادی کی للک کو کوئی بھی قوم یا ملک کبھی پست نہین کر سکی۔ فلسطینیوں کا یہ جذبہ ہی ہے کہ آج بھی فلسطین کا پرچم بلند ہے اور فلسطینی اپنی جان کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ بس اتنا سا قصہ ہے فلسطینیوں کا جس نے دنیا کے تمام طاقتور ممالک کو پریشان کر رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔