‘زخم جب فریاد کرتے ہیں تو گولیاں بے بس ہو جاتی ہیں’

غزہ میں ہر طرف قیامت کا منظر ہے مگر حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انسانیت کے خود ساختہ علمبردار فرعون اعظم کے خونی پنجوں کو مروڑنے کی بجائے ظالم کی بالواسطہ طور پر حمایت کرنے کی روش پر قائم ہیں

<div class="paragraphs"><p>غزہ پر اسرائیلی حملہ / Getty Images</p></div>

غزہ پر اسرائیلی حملہ / Getty Images

user

نواب علی اختر

اس روئے زمین پر فلسطینی واحد ایسے مظلوم ہیں جن کی اپنی زمین کے ساتھ ساتھ زندگی بھی چھینی جا رہی ہے، انبیاء کی سرزمین معصوموں کے خون سے لال ہو چکی ہے، دو درجن سے زائد اسپتال اور اسکول کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں، صحت کے مراکزمیں زندگی بچانے والی سہولیات ختم ہو چکی ہیں، وحشیانہ بمباری میں ہزاروں بے گناہ شہید ہو چکے ہیں اور جو ’خوش نصیب‘ زندہ بچ گئے ہیں ان کی بھی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب وہ ظالم کے بموں کا نشانہ بن جائیں۔ غزہ میں اسرائیل کی خوفناک جارحیت کے سبب ہرطرف قیامت صغریٰ کا منظرہے مگردن رات حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انسانیت کے خود ساختہ علمبردار فرعون اعظم کے خونی پنجوں کو مروڑنے کی بجائے زبانی تنقید اور مذمت کر کے ظالم کی بالواسطہ طور پر حمایت جاری رکھنے کی روش پر قائم ہیں۔

یہ کوئی کل کی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے فلسطین خون کے آنسو رو رہا ہے ،1948ء سے اب تک فلسطین، اسرائیل تنازعہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ فلسطین کے شہری اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جان ہتھیلی پررکھ کر قابض ریاست سے نبردآزما ہیں۔اس عرصہ میں لاکھوں فلسطینیوں کوجہاں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا وہیں بے شمار فلسطینی مرد وخواتین کے ساتھ بچوں کو حوالہ زنداں کیا گیا۔ ان میں ہزاروں خواتین بھی شامل ہیں، جنھیں حراستی مراکز میں منتقل کیے جانے کے بعد طرح طرح کے مظالم اور زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں جن کے مطابق قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، عریاں تفتیش، لالچ اور دھونس کے ذریعے بلیک میلنگ اور تحقیقات کے دوران وحشیانہ تشدد جیسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔


ان تمام مظالم کے باوجود فلسطینی عورتیں جرات و ہمت کی نئی داستانیں رقم کرتی رہی ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی تحریک انہی خواتین کے جذبوں اور قربانیوں سے پروان چڑھی ہے۔ انہی خواتین نے وہ نڈر بیٹے پروان چڑھائے ہیں جو نسل در نسل عزیمت و بہادری کے نقوش ثبت کر رہے ہیں، فلسطین کی کتنی مائیں ہیں جن کی گود اجڑ گئی ہے، کتنی سہاگنیں بیوہ ہوگئی ہیں اور کتنی بہنیں ہیں جن کے بھائی لہو رنگ کفن اوڑھ کر فلسطین کی مٹی میں مٹی ہوگئے ہیں، لیکن وہ پھر بھی آزادی و حریت کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ فلسطینی عورتیں فقط گھر میں مردوں، بیٹوں اور بھائیوں کی کمر ہمت نہیں بندھاتیں بلکہ ان میں سے بہت سی خواتین صہیونی جیلوں میں بھی اذیتیں برداشت کر رہی ہیں لیکن آزادی کا راستہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے قابض ریاست چین کی نیند نہیں سو پا رہی ہے۔

یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ مغربی میڈیا عام طور پر فلسطینی خواتین پر ہونے والے ظلم کی خبروں کو نظرانداز کر دیتا ہے، تاکہ مغرب کے عوام کو اندازہ نہ ہوسکے کہ مغرب کی استعماری حکومتیں جس اسرائیل کی ناز برداریاں کر رہی ہیں، وہ وحشت و دہشت کے کیسے ہولناک طریقے فلسطین کے اصلی باسیوں کو دبانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خواتین پر ہونے والے مظالم کی حقیقت اگر دنیا کے عوام پر بالعموم اور مغرب کے عوام پر بالخصوص آشکار ہو جائے تو یقیناً وہ اپنے حکمرانوں پر دباو ڈالیں گے کہ وہ اسرائیل کی ناز برداریوں کو ترک کر دیں اور اپنے عوام کے ٹیکسوں کے ایک قابل ذکر حصے کو ظالم صہیونیوں کی حمایت پر خرچ نہ کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں فلسطینی عوام بالخصوص خواتین اور بچوں پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کو دنیا کے عوام پر آشکار کیا جائے۔


آج بیت المقدس ،الخلیل ،غزہ اور فلسطینی سرزمین کے دوسرے شہروں میں لوگوں کو قید کر دیا گیا ہے،انہیں خود ان کے گھروں میں ان کے خون سے نہلایا جا رہا ہے ،والدین اپنے ہی گھروں میں اپنے جوان بیٹوں کے داغ میں فرش عزا بچھائے ہوئے ہیں ،وہ سب بھوک کا سامنا کررہے ہیں اور صہیونیوں نے پوری فلسطینی قوم کا اقتصادی محاصرہ کیا ہوا ہے۔ مصر کی گزر گاہ رفح بند ہے کہ کہیں غزہ میں رہتے ہوئے لا الہ کا نعرہ لگانے والے آزاد و حریت پسندوں تک کچھ دوائیں نہ پہنچ سکیں جن سے زخمیوں کا مداوا ہو سکے کہ زخموں سے خون رسنا ضروری ہے۔ان بے چاروں کو پتہ تو چلے جو اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہیں کہ چارہ ساز خدا نہیں امریکہ و اسرائیل و ان کے گماشتے ہیں لیکن یہ کیا ہے کہ ان آزاد زخمیوں کا خون جتنا زیادہ بہتا ہے اتنا ہے اللہ اکبر کا نعرہ سرخ اور سرخ ہو نہ صرف فضا کے دوش پر بلند ہوتا ہے بلکہ ان محرومین کی چارہ سازی کرتا ہے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی یہ اللہ کی کبریائی کا لہو لہو نعرہ ایک ایسا دائربھی ترسیم کرتا ہے جس میں ان کو قید کرنے والے خود مختار قیدی نظر آتے ہیں اور قیدیوں کا بہتا ہوا لہو ان کی آزادی کا ترجمان بن جاتا ہے۔ یاد رہے زخم جب فریاد کرتے ہیں تو گولیاں بے بس ہو جاتی ہے، لہو کی دھار جب بجلی کی طرح کوندتی ہے تو توپ کے دہانے اپنے وجود سے نکالے گئے سیاہ و مہیب بادلوں میں خود کو چھپا لیتے کہ عزم کے مقابل اسلحوں سے سجی رزم شکست سے عبارت ہے۔ ایسے میں حق پرستوں کے بربط دل سے بس یہی آواز آتی ہے’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘۔ صہیونی حکومت صرف فلسطینیوں یا مسلمانوں کی مجرم نہیں پوری بشریت کی مجرم ہے۔ تاریخ انسانیت کے اس آشکار و بڑے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا نہ صرف ہمارا بلکہ پوری بشریت کا انسانی فریضہ ہے


بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کے لئے آواز اُٹھانے والوں اور عملی جدو جہد کرنے والے سرفروشوں اور جانبازوں پر غاصب صہیونیوں کی طرف سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اُن کے اپنے ملک کو انکے لئے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ قابض دہشت گردوں نے غازہ پٹی کا چاروں طرف سے محاصرہ کررکھا ہے ۔ بجلی پانی کی ترسیل تک نہیں ہو پا رہی ہے۔ غذائی اشیا کی زبردست قلت ہے اسلئے کہ مصر کے راستے رفاہ سرحد سے بھیجے جارہے امدادی سامان کوبھی اسرائیلی درندے ٹھیک سے نہیں پہنچنے دے رہے ہیں۔ غزہ پر اب تک ہزاروں بموں کی بارش ہو چکی ہے جسکے نتیجے میں ہزاروں عام شہر یوں (بے گناہوں) کی شہادتیں ہو چکی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے جبکہ عالمی قوانین کے مطابق یہ جنگی جرائم ہیں جن کو سرزد کرنے میں اسرائیل نے بے شرمی و بے حیائی کی ساری حدوں کو پار کر دیا ہے۔

غرضکہ اسرائیلوں نے ظلم و بربریت کی ساری حدود عبور کر لی ہیں جسکے ردّ عمل کے طور پر غیر مسلم ممالک اور خود امریکہ برطانیہ۔ فرانس میں بھی پُر ہجوم مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل میں بھی عوام جنگ روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکہ میں تو یہودی بھی اسرائیلی جارحیت کی پر زور مخالفت کر رہے ہیں جسکا ثبوت امریکی صدر بائیڈن کی تقریر کے دوران اسرائیل کے خلاف اور فلسطینی کی حمایت میں لگنے والے نعرے ہیں جب بائڈن اپنی پارٹی کی حامیوں کے درمیان تقریر کر رہے تھے ”فلسطین کو آزاد کرو فلسطین اکیلا نہیں ہے“ جیسے نعرے لگائے گئے اور ایک خاتون یہودی پیشوا نے بائڈن کی تقریر کو روکتے ہوئے کہا کہ اگر تم واقعی یہودی قوم کو اہمیت دیتے ہو تو غزہ میں جنگ بند کراؤ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔