جب ایسٹ انڈیا کمپنی رخصت ہوئی اور وائسرائے ہندوستان پر قابض ہوئے... کرشن پرتاپ سنگھ
1857 کی بغاوت کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ اور وائسرائے کا دور شروع ہوا۔ لارڈ کیننگ پہلے وائسرائے بنے۔ لارڈ کرزن کی سخت گیر پالیسیوں اور لارڈ رپن کی اصلاحات نے ہندوستانی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے

کہا جاتا ہے کہ آزادی کی جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ ناکام سمجھی جا سکتی ہیں۔ کوئی قوم ایک بار آزادی حاصل کر لے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جدوجہد سے فارغ ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی ہمیشہ اپنی مسلسل حفاظت اور بقا کا تقاضا کرتی ہے۔ یہی بات 1857 کی اس پہلی جنگِ آزادی پر بھی صادق آتی ہے جسے اکثر لوگ ناکام کہہ کر بھلا دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے بعد ہمیں اپنی حتمی آزادی حاصل کرنے کے لیے اگرچہ نوے سال انتظار کرنا پڑا، مگر یہ جدوجہد بالآخر رنگ لائی۔
1857 کے اس معرکے کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس جنگ نے برطانیہ کی آنکھیں کھول دیں اور وہاں کی پارلیمنٹ کو مجبور کر دیا کہ وہ کمپنی کو برطرف کر کے براہِ راست تاجِ برطانیہ کے تحت ہندوستانی انتظام سنبھالے۔ اسی مقصد کے لیے 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’انڈین گورنمنٹ ایکٹ‘ منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے ’وائسرائے‘ کا نیا منصب قائم کیا گیا۔
یہ محض نام کی تبدیلی نہیں تھی۔ گورنر جنرل بنیادی طور پر کمپنی کے انتظامی نمائندے تھے اور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو جواب دہ ہوتے تھے لیکن وائسرائے براہِ راست برطانوی حکومت اور بادشاہِ برطانیہ کے نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے۔ انہیں سفارتی و آئینی اختیارات سے لیس کر تاجِ برطانیہ کے سامنے جواب دہ بنایا گیا۔ لفظ ’وائسرائے‘ کا مطلب ہی بادشاہ یا ملکہ کا نمائندہ ہے۔ ان کی تقرری برطانوی پارلیمنٹ کی سفارش اور منظوری سے کی جاتی تھی۔
اس نئے نظام کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی سامراج ہندوستان کو اپنے ’تاج کے گہنے‘ کے طور پر دیکھتا تھا۔ چنانچہ وائسرائے اس گہنے کے محافظ کے طور پر مقرر کیے گئے۔ کئی وائسرائے ایسے گزرے جنہوں نے اپنی وفاداری اور صلاحیت سے سامراج کو مطمئن کیا اور تاریخ میں نمایاں مقام بنایا۔
ان وائسراؤں میں لارڈ کیننگ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ وہ 1857 کی جنگ کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے گورنر جنرل تھے۔ جب کمپنی کا اقتدار ختم ہوا تو وہ آخری گورنر جنرل ثابت ہوئے اور پھر پہلے وائسرائے کے طور پر تقرر پانے والے بھی یہی تھے۔
لیکن اگر ہندوستانی عوام کے زاویے سے دیکھا جائے تو وائسرائے میں سب سے زیادہ بدنام اور نفرت انگیز نام لارڈ جارج ناتھنئیل کرزن کا ہے۔ محض 39 برس کی عمر میں وہ 1899 میں اس منصب پر فائز ہوئے اور 1905 تک رہے۔ کرزن کی فطرت سخت گیر، مطلق العنان اور نسلی تعصب سے بھری ہوئی تھی۔ وہ ہندوستانیوں کو کردار، ایمانداری اور صلاحیت کے لحاظ سے بری طرح کمتر سمجھتے تھے اور خود کو مہذب دنیا کا نمائندہ قرار دیتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے افسوسناک ’بنگال کی تقسیم‘ کی۔
1905 میں کی جانے والی یہ تقسیم، بظاہر انتظامی سہولت کے نام پر کی گئی لیکن اصل میں اس کا مقصد ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا اور پھوٹ ڈالنا تھا۔ ہندوستان بھر میں اس اقدام کے خلاف شدید ردعمل ہوا اور اسے قوم کے درمیان تفریق کی سازش سمجھا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب بنگال کی فضا میں "بائیکاٹ" اور "سوَدیشی" تحریکیں جنم لینے لگیں۔
یقیناً کرزن کے زمانے میں کچھ اصلاحات بھی ہوئیں، مثلاً ریلوے کا پھیلاؤ، پولیس و عدلیہ میں تبدیلیاں، تعلیمی اور زرعی اقدامات لیکن عوامی رائے میں وہ سخت ناپسندیدہ ہو کر رخصت ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان سے پہلے ہندوستانیوں کو ایک نسبتاً ’ہمدرد‘ وائسرائے، لارڈ رِپن، مل چکے تھے۔
لارڈ رپن (1880–1884) کو ہندوستانی عوام ’دوستِ ہند‘ مانتے تھے۔ ان کے دور میں کئی ترقی پسند اقدامات کیے گئے: مقامی خودمختاری کی بنیاد رکھی گئی، ورناکولر پریس ایکٹ منسوخ ہوا، کم عمر بچوں کے کام پر پابندی لگی اور ہر دس سال بعد مردم شماری کا آغاز کیا گیا لیکن ان کا سب سے یادگار کارنامہ ’اِلبرٹ بل‘ ہے۔
یہ بل اس بات کی اجازت دیتا تھا کہ انڈین سول سروس کے ہندوستانی افسر بھی یورپی باشندوں کے مقدمات کی سماعت کر سکیں۔ برصغیر کے انگریز اس کو برداشت نہ کر سکے۔ انہیں یہ بات ناقابلِ قبول تھی کہ کوئی ہندوستانی عدالت میں ان کے خلاف انصاف کرے۔ چنانچہ انگریز افسران، تاجران اور پلانٹیشن مالکان سب کے سب بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ جلسے جلوس ہوئے، سازشیں رچائی گئیں، حتیٰ کہ لارڈ رپن کو اغوا کر کے زبردستی واپس انگلینڈ بھیج دینے کی سازش بھی کی گئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ البرٹ بل کو سخت کمزور کر دیا گیا۔ ترمیم کے بعد یہ طے پایا کہ اگر کسی یورپی پر مقدمہ چلانا ہو تو وہ یہ حق رکھے گا کہ اگر سماعت کرنے والا آئی سی ایس ہندوستانی ہے تو ملزم ایسی جیوری کا مطالبہ کر سکتا ہے، جس میں نصف ارکان لازمی طور پر یورپی ہوں۔ یوں مساوات کا اصول دفن کر دیا گیا۔
اس واقعے نے ہندوستانیوں کو ایک تلخ سبق دیا: جب تک وہ متحد نہیں ہوں گے، کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ لارڈ رپن کو عوامی حمایت حاصل تھی۔ انہیں ’سب سے اچھا اور نیک دل وائسرائے‘ کہا گیا۔ فلورنس نائٹینگل نے تو انہیں ہندوستان کا نجات دہندہ کہا۔ جب وہ 1884 میں واپس گئے تو انہیں ایسی شاندار الوداع ملی جو کسی اور وائسرائے کے حصے میں نہ آئی۔
اس سب کے بیچ یہ بھی یاد رہے کہ برطانوی سامراج اپنی سختی میں کسی کمی کا قائل نہ تھا۔ چوتھے وائسرائے لارڈ میو کو 1872 میں انڈمان میں ایک قیدی شیر علی آفریدی نے قتل کر دیا۔ شیر علی پنجاب پولیس کا سابق اہلکار تھا اور اپنے رشتہ دار کے قتل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ اس نے عہد کر رکھا تھا کہ کسی بڑے انگریز افسر کو قتل کرے گا۔ چنانچہ لارڈ میو کے دورے کے دوران اس نے وار کر دیا۔ بعد میں اسے پھانسی دے دی گئی۔ بعض محققین کے نزدیک یہ ’پہلا جہاد‘ تھا۔
اس کے بعد وائسرائے کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور بالآخر لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچا۔ ماؤنٹ بیٹن ہی وہ آخری وائسرائے تھے جن کے دور میں ہندوستان تقسیم ہوا اور آزادی ملی۔ 15 اگست 1947 کو وہ آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور یوں وائسرائے کا عہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
یہ پوری داستان ہمیں یہ بتاتی ہے کہ 1857 کی "ناکام" بغاوت دراصل ہندوستان کی آزادی کی ایک عظیم الشان پہلی کڑی تھی۔ اسی نے کمپنی راج کو ختم کیا، تاجِ برطانیہ کو براہِ راست حکومت پر مجبور کیا اور ہندوستانیوں کو متحد ہو کر حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور دیا۔ کرزن جیسے ظالم وائسرائے نے تقسیم کی سازشیں کیں مگر رپن جیسے ہمدرد بھی سامنے آئے جنہوں نے مساوات اور آزادی کی پہلی کرن دکھائی۔ آخرکار یہ جدوجہد 1947 کی آزادی پر منتج ہوئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔