جب آفت زدگان کی مدد سیاست کی نذر ہو جائے

قدرتی آفات میں مرکزی حکومت کی امداد غیر جانبدار نہیں رہی۔ غیر بی جے پی ریاستوں کو بار بار کم یا تاخیر سے مدد ملی، جس سے وفاقی نظام اور آئینی ذمہ داریوں پر سوال کھڑے ہوتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ہماچل پردیش میں تباہی کا منظر / فائل تصویر / یو این آئی</p></div>
i
user

ہرجندر

قدرتی آفات کے وقت متاثرہ عوام کی فوری مدد حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب یہی امداد سیاست کا ہتھیار بن جائے تو سب سے زیادہ نقصان انہی لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے جو پہلے ہی مصیبت میں گھرے ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں قدرتی آفات کے دوران مرکزی حکومت کے رویے نے اسی تلخ حقیقت کو نمایاں کیا ہے۔

پنجاب کے لیے وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ 1600 کروڑ روپے کی امداد میں سے ایک روپیہ بھی ریاست کو نہ ملنے کا انکشاف خود پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے 29 نومبر کو گرداس پور میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس کے بعد جب کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ چرنجیت سنگھ چنّی اور سکھویندر سنگھ رندھاوا نے 2 دسمبر کو یہی معاملہ لوک سبھا میں اٹھایا تو مرکزی حکومت نے جواب دیا کہ پنجاب کو آفت سے نمٹنے کے لیے 481 کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں۔ اسی دن ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو نے اسمبلی میں بتایا کہ وزیراعظم نے ریاست کے لیے 1500 کروڑ روپے کی جس امداد کا اعلان کیا تھا، اس میں سے اب تک کوئی رقم نہیں پہنچی۔

یہ دونوں اعلانات اس وقت کیے گئے تھے جب وزیراعظم نریندر مودی آفت زدہ ریاستوں کے دورے پر گئے تھے۔ لوک سبھا میں جس 481 کروڑ روپے کا ذکر ہوا، وہ دراصل اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ (ایس ڈی آر ایف) کے تحت دی گئی رقم تھی۔ ایس ڈی آر ایف ایک ایسا فنڈ ہے جس میں ریاستوں کو بھی اپنی حصے داری دینی ہوتی ہے اور اس کی تقسیم فنانس کمیشن کے طے شدہ فارمولے کے مطابق ہوتی ہے۔ یہاں بھی نقصان کے اندازے پر مرکز اور ریاست کے درمیان اختلاف کی گنجائش رہتی ہے، جس میں سیاست کا دخل آسانی سے ہو جاتا ہے۔

لیکن پنجاب اور ہماچل کے وزرائے اعلیٰ ایس ڈی آر ایف کی نہیں بلکہ وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ خصوصی امداد کی بات کر رہے تھے۔ ایک ہی دن میں بڑی رقم کے اعلانات سے اس وقت سرخیاں تو بن گئیں مگر ریاستیں آج تک ان رقوم کی منتظر ہیں۔


وزیراعظم کے اعلان میں ایک حصہ مختلف مرکزی اسکیموں کے تحت دی جانے والی امداد کا تھا، جبکہ باقی رقم وزیراعظم ریلیف فنڈ سے آنی تھی۔ اس میں متاثرہ افراد کو براہِ راست مدد شامل تھی، مثلاً آفت میں جان گنوانے والوں کے لواحقین کو دو لاکھ روپے اور شدید زخمیوں کو پچاس ہزار روپے فی کس۔

اس کے علاوہ مرکز کے پاس نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ (این ڈی آر ایف) بھی ہے، جس سے بڑی امداد تب ملتی ہے جب کسی آفت کو ’شدید‘ قرار دیا جائے۔ یہ فیصلہ انٹر منسٹریل سنٹرل ٹیم (آئی ایم سی ٹی) متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد کرتی ہے۔ پنجاب اور ہماچل دونوں میں ٹیم نے دورہ کر لیا مگر حتمی فیصلہ اب بھی سرکاری فائلوں میں پھنسا ہوا ہے۔

مرکز کے پاس ایک اور اختیار یہ بھی ہے کہ آفت زدگان کے قرض معاف کرے مگر اس فیصلے میں بھی سیاست کا دخل نمایاں رہتا ہے۔ پنجاب اور ہماچل دو الگ ریاستیں ہیں مگر ایک بات مشترک ہے کہ دونوں میں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور ہماچل میں کانگریس اقتدار میں ہے۔ ’ڈبل انجن سرکار‘ کو مرکزی امداد کی ضمانت قرار دینے کے اس دور میں کئی غیر بی جے پی ریاستوں کو مرکزی حکومت کے امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس امتیاز کو سمجھنے کے لیے 2023 کی ہماچل اور اتراکھنڈ کی آفات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہماچل میں بادل پھٹنے، شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ ریاست نے 9 سے 10 ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ لگایا۔ دوسری جانب اتراکھنڈ میں جوشی مٹھ میں مکانات میں دراڑیں پڑیں، جس کے لیے ابتدا میں 2945 کروڑ اور بعد میں 3500 کروڑ روپے کی امداد مانگی گئی۔


مرکز نے ہماچل کو کل 2640 کروڑ روپے دیے، یعنی مطالبے کا صرف 26 فیصد، جبکہ اتراکھنڈ کو اس کی مانگی گئی رقم کا تقریباً 56 فیصد مل گیا۔ ہماچل کے وزیراعلیٰ نے اسے ’سوتیلا سلوک‘ سے تشبیہ دی، جبکہ اتراکھنڈ کے بی جے پی وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے امداد کا خیرمقدم کیا۔

یہ پہلا موقع نہیں۔ 2017 میں بہار میں شدید سیلاب آیا، 20 اضلاع متاثر ہوئے، ڈیڑھ کروڑ لوگ متاثر اور 400 سے زائد اموات ہوئیں۔ ریاست نے 9,571 کروڑ روپے مانگے، مگر اس وقت غیر بی جے پی حکومت ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے صرف 500 کروڑ روپے کا اعلان کیا۔ تین سال بعد، جب بی جے پی حکومت میں شامل ہو گئی، تو امداد کی بارش ہو گئی—ایس ڈی آر ایف اور این ڈی آر ایف کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے جاری کیے گئے۔

اگر کسی ریاست میں بی جے پی کی حکومت نہ ہو تو بعض اوقات مرکز آفت کو آفت ماننے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ مغربی بنگال کے شمالی حصے میں پچھلے سال آنے والے سیلاب میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے مگر مرکز نے یہ کہہ کر امداد سے انکار کر دیا کہ یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ساختہ آفت ہے۔ بعد میں سیلابی انتظام کے لیے رقم تو دی گئی مگر متاثرین کو براہِ راست کوئی مدد نہیں ملی۔

اسی طرح تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک، تلنگانہ اور جھارکھنڈ جیسے کئی ریاستوں میں بھی امتیازی رویّے کی مثالیں ملتی ہیں۔ اکتوبر میں کیرالہ ہائی کورٹ نے وائناڈ کے آفت زدگان کے قرض معاف نہ کرنے پر مرکز پر سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ کم شدت والی آفات میں آسام اور گجرات کو فوری مدد ملی، جو امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یاد دلایا کہ وفاقی نظام میں ایسے رویے کی گنجائش نہیں۔

قدرتی آفت یہ نہیں دیکھتی کہ ریاست میں کون سی پارٹی کی حکومت ہے۔ حکومت کو بھی ایسا ہی غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ اگر ملک کو اپنی وفاقی روح برقرار رکھنی ہے تو آفت سے نمٹنے کے لیے امداد کو سیاسی فائدے کے بجائے آئینی ذمہ داری سمجھنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔