ہم آج بھی اسی گھر میں رہتے ہیں جسے نہرو نے تعمیر کیا

ہماری کثیر جہتی روایت اور مشترکہ خیالات ایک جدید اور تعصب سے پاک آئین پر مبنی ہیں، جس پر آج حملے ہو رہے ہیں۔ ہم ہندوستان کے باشندگان ہیں اور آج بھی اسی گھر میں رہتے ہیں جو نہرو نے تعمیر کیا۔

فائل تصویر 
فائل تصویر
user

موہن گروسوامی

جواہر لال نہرو کا انتقال 27 مئی 1964 کو ہوا۔ آج کل اکثر یہ سوال کیا جا تا ہے کہ، ’’اچھا، تم اس وقت کہاں تھے؟‘‘ بالکل ویسے ہی جیسے کینیڈی کے قتل کے وقت، اندرا گاندھی کے قتل کے وقت، امریکہ میں 9/11 حملہ کے وقت سوال کیا گیا تھا کہ تم کہاں تھے؟ ایسے واقعات سے پیدا دہشت آپ کے آس پاس کے ماحول کو مزید خوفناک بنا دیتی ہے اور یہ خوف ہمیشہ کے لئے آپ کے لئے دل و دماغ میں بس جاتا ہے۔

مجھے بخوبی یاد ہے جب نہرو کا انتقال ہوا اور مجھ تک یہ خبر پہنچی۔ اس دن صبح 6.25 بجے انہیںدل کا دورہ پڑا تھا اور فوری طور پر وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ اسی بے ہوشی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے خاندان کے ایک رکن کے مطابق ان کے انتقال کی وجہ، ’اندرونی ہیمریج، فالج کا اٹیک اور دورہ قلب تھا۔‘ ایک روز قبل ہی وہ مسوری سے آئے تھے اور چست درست نظر آ رہے تھے لیکن ان کی طبیت خراب چل رہی تھی۔ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا تھا اس لئے پارلیمنٹ اور ملک کو ان کے انتقال کی خبر دوپہر 2 بج کر 5 منٹ پر دی گئی۔

مجھے وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ڈلاس میں کینیڈی قتل کی خبر میں نے ڈیکن کرانیکل میں پڑھی تھی۔ بالکل ویسے ہی جسے مجھے جے پال ریڈی نے بتایا تھا کہ اندرا گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔

میں ان دنوں پونا میں تھا اور گوئیتھ انسٹی ٹیوٹ میں جرمن پڑھ رہا تھا۔ کلاس ختم ہونے پر سائیکل سے ایک دوست سے ملنے جا رہا تھا۔ میں جب ایک سرکاری عمارت کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ترنگا سرنگو ہے اور مجھے جب بتایا گیا تو میرے اندر ایک زبردست خوف کی لہر دوڑ گئی۔

لاتعداد ملک کے باشندگان کی طرح میں بھی نہرو کے بغیر ہندوستان کا تصور نہیں کر پا رہا تھا، حالانکہ میں نے اس کے بارے میں کافی پڑھا تھا کہ اگلا کون؟ اس تعلق سے سب سے زیادہ کتاب پڑھی گئی تھی وہ تھی امریکی صحافی ویلس ہینگن کی، ’آفٹر نہرو، ہو؟‘ ہینگن نے اپنی کتاب میں کئی لوگوں کے حوالہ سے قیاس لگائے تھے۔ اس نے لکھا تھا، ’’ہندوستان میں بہت سے ایسے لوگوں نے مجھے بتایا کہ ہندوستانی تقسیم کے بعد نہرو ہی واحد ایسے شخص تھے جو ملک کو ایک دھارے میں لا سکتے تھے۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو مانتے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ نہرو کی جگہ کوئی اور ہو۔‘‘

ظاہر ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں نہرو اپنا کام کر چکے تھے اور ان کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔ 1962 کی ہندوستان-چین جنگ کے بعد تو یہ خیال زور پکڑنے لگا تھا۔ آگے کیا ہوگا یہ سوچے سمجھے بغیر میں اپنے ہاسٹل واپس آ گیا۔ وہاں ریڈیو پر قومی سوگ کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ اس زمانے میں صرف آل انڈیا ریڈیو اور ’میل ولے ڈی میلو‘ ہی ہوا کرتے تھے۔

نہرو کے وارث پر بحث لگاتار جاری تھی، حالانکہ گلزاری لال نندا کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا جا چکا تھا، لیکن انہیں کوئی بھی اصل وارث ماننے کو تیار نہیں تھا۔ رات ہوتے ہوتے خوف بڑھنے لگا۔ ایک خوف تھا کہ شاید فوجی حکمرانی ہو جائے گی۔ دوسرا یہ تھا کہ یا تو کمیونسٹ یا سی آئی اے تختہ پلٹ کر دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہرو نے ایک ایسے جدید اور جمہوری ملک کی تعمیر کی تھی جسے کوئی چھو بھی نہیں سکتا تھا۔

یہ ہندوستان کی قسمت تھی کہ اسے اپنی جمہوریت کے شروعاتی سالوں میں نہرو کی قیادت حاصل ہوئی۔ ہم نے ایسے راستہ منتخب کئے جو انجانے تھے اور یہی سب سے اہم تھا۔ ہم بہت کچھ بہتر کر سکتے تھے لیکن ان حالات میں ہم اور بھی برے دور میں پہنچ سکتے تھے، جیسا کہ اس دور میں کئی مملاک کے ساتھ ہوا۔ نہرو اور ان کے دور کے رہنماؤں نے جس ہندوستان کی تعمیر کی وہ آج بھی مضبوط ہے۔

نہرو ذہین تھے اور وسیع سوچ کے مالک تھے۔ جس نے بھی ان کی تصنیف ’ڈسکوری آف انڈیا‘ پڑھی ہے وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ہمارے لئے ایک منفرد شمولیت والی قومیت قائم کی۔

میں اکثر بہت آسان طریقہ سے اسے سمجھاتا ہوں۔ مثال کے طور پر مدورے کے میناکشی مندر، آگرہ کے تاج محل اور امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کو مساوی تاریخی اثاثہ کا درجہ دیا جانا۔ ہر وہ حملہ جو بیرونی لوگوں کی دخل، ہر موسیقی کا آلہ اور ہر قسم کی روایت جو ہمارے یہاں پھلی پھولی وہ مشترکہ طور پر ہماری ہے۔ راگ اور غزل بھی ہماری ہے، جیسے بھیم سین جوشی اور استاد بسم اللہ خان ہمارے ہیں۔

نہرو نے بھی غلطیاں کیں ا ور جب بڑے لوگ غلطیاں کرتے ہیں تو وہ تاریخی ہوتی ہیں۔ وہ چین کے ساتھ تنازعہ میں دھوکہ کھا بیٹھے۔ انہوں نے معیشت کو مرکزی منصوبوں کی رسیوں میں جکڑا جس کا فائدہ سرمایہ داروں نے اٹھایا۔ لیکن ان کا ویژن ان سب سے کہیں بڑا تھا۔ انہوں نے ایسے ہندوستان کے تصور پر زور دیا جو دلائل اور سائنسی بنیاددوں پر آگے بڑھے اور ترقی کرے۔

لیکن آج ہم ایک ایسا ہندوستان بن گئے ہیں جو بندیاد پرستی اور اندھے یقین پر مبنی ہو گیا ہے۔ مذہب اور اندھا عقیدہ آج ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں اور سماجی تانا بانا درہم برہم ہونے اور اخلاقیات مٹ جانے کی بھی وجہ ہے۔

حال ہی میں نہرو پر تیکھے حملے کئے گئے۔ یہ حملے بہت ہی معمولی اور چھوٹے لوگوں نے کئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں تاریخ کا علم نہیں ہے اور ٹیکسیلا کو پٹنہ، گنگا کو سندھو سے اور سکندر کو سیلیوکس کی جگہ مانتے ہیں۔ جنہیں سائنس کی سمجھ نہیں ہے اور سوچتے ہیں کہ گنیش حقیقت میں تھے نہ کہ علامت کے طور پر، جو ٹرانسپلانٹ اور پلاسٹک سرجری میں فرق نہیں سمجھتے، جنہیں حقائق اور تصور میں فرق نہیں پتہ۔ یہ لوگ اب تنگ نظریہ اور تقسیم کاری کے طریقوں سے ہماری پہچان بنا رہے ہیں اور ایک بڑے طبقہ کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔

ہمارے کثیر جہتی اور مشترکہ خیالات اور تعصب سے پاک آئین پر مبنی ہے، جسے آج چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے کئی برے دور دیکھے ہیں اور ان سے ابھرا ہے۔ ہم ہندوستان کے لوگ ہیں، ہم ہندوستانی ہیں اور ہم آج بھی اسی گھر میں رہتے ہیں جسے نہرو نے تعمیر کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 May 2018, 10:35 AM