ہم گھریلو قرض دار بنتے گئے اور گھر کو خبر نہ ہوئی... اجیت راناڈے

ہندوستانی کنبوں میں گھریلو قرض کی مینار جس خاموشی سے بڑھتی گئی ہے، اب اس سے باہر نکالنے کا انتظام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

ڈاکٹر اجیت راناڈے

اب تک ہم جنھیں ان کی بچت کرنے کی اچھی عادتوں کے لیے جانتے تھے، وہی ہندوستانی کنبہ اب بہت تیزی کے ساتھ، لیکن اتنی ہی خاموشی سے ریکارڈ سطح پر قرض لینے والے بنتے جا رہے ہیں۔ آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) کی مالیاتی استحکام رپورٹ بتاتی ہے کہ 2024 کے آخر تک ہندوستان میں گھریلو قرض جی ڈی پی کا 42 فیصد تھا، جبکہ 2015 میں یہ محض 26 فیصد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجموعی قرض تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔

فی کس اوسط قرض صرف 2 سالوں میں 23 فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی کس اوسط قرض بڑھنے کی رفتار قومی آمدنی کے مقابلے میں 2 گنی ہو چکی ہے۔ یہ 2023 میں 3.9 لاکھ روپے سے بڑھ کر مارچ 2025 میں 4.8 لاکھ ہو گیا ہے۔ اس قرض کا تقریباً 55 فیصد، یعنی نصف سے زیادہ حصہ غیر رہائشی خوردہ قرضوں مثلاً کریڈٹ کارڈ کی بقایہ رقم، انفرادی قرض، آٹو قرض اور گولڈ قرض سے آتا ہے، جبکہ روایتی گھریلو قرض مجموعی گھریلو قرض کا تقریباً 29 فیصد ہے۔


دوسرے لفظوں میں کہیں تو گھریلو قرض کی اس بڑھتی رفتار کا مطلب مستقبل کے لیے جائیداد بنانا نہیں، بلکہ صرف گزر بسر کرنے کے واسطے ہے۔ سوچ سمجھ کر خرچ کے لیے پچانے جانے والے جو متوسط اور ذیلی طبقہ کے کنبے عام طور پر بچوں کی تعلیم یا کام چلاؤ گھر بنانے کے لیے، یا معاشی مدد کے طور پر سونا خریدنے کے لیے بچت کرتے رہے ہیں، آج وہ موجودہ ضروری استعمال کے اخراجات سے نمٹنے کے لیے قرض لے رہے ہیں۔

بڑھتا قرض-جی ڈی پی تناسب، خصوصاً اگر قرض لینے والا سرمایہ کاری کی جگہ صارفیت سے متاثر ہو، ہندوستان کی طویل مدتی ترقی کے امکانات کو کمزور کرے گا۔ ہندوستان کا قرض تناسب اب بھی ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مثال کے لیے آسٹریلیا اور کناڈا میں گھریلو قرض جی ڈی پی کے 100 فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن ہندوستان کے برعکس ان دونوں ہی ممالک میں ’لبرل سماجی سیکورٹی‘ اور ’ضعیفی انکم سیکورٹی‘ طے ہے، جس کے بعد زیادہ بچت کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں بھی گھریلو قرض کا جی ڈی پی سے تناسب 75 فیصد ہے اور چین میں 63 فیصد ہے۔ امید ہے کہ امریکہ میں سب-پرائم یرغمال بحران اور چین میں ایورگرینڈ حادثہ لوگ بھولے نہیں ہوں گے۔ ایک ممکنہ بلبلے جیسی تعمیر کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 42 فیصد پر، ہندوستان کا گھریلو قرض امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنبھالنے لائق (انتظام کے لائق) ظاہر کرتا ہے۔ جنھیں 08-2007 کے سَب-پرائم یرغمال بحران کی یاد ہوگی یا چین، جس کے پاس اپنی خود کی بری یادیں (ایورگرینڈ) ہیں، وہ اسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کو فکر مند ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ گھریلو قرض گزشتہ 5 سالوں میں لگاتار بڑھ رہا ہے، جو آمدنی میں اضافہ کے مقابلے کافی تیز ہے۔


بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے ذریعہ 54 ممالک پر کیے گئے ایک سروے میں پایا گیا کہ گھریلو قرض میں اضافہ شروع میں خرچ اور جی ڈی پی کو فروغ دیتی ہے، لیکن جی ڈی پی کے 60 فیصد کی حد سے آگے، یہ ترقی کو دھیما کرنا شروع کر دیتا ہے، جس سے قرض کے ہر اضافی نکتہ کے لیے طویل مدتی جی ڈی پی میں 0.1 فیصد پوائنٹ کی کمی آتی ہے۔ ہندوستان کا تناسب حال میں بھلے ہی کم ہے، لیکن بڑھ اسی سمت میں رہا ہے۔

دراصل مسئلہ گھریلو قرض نہیں بلکہ وہ سبب یا مقصد ہے جن کے لیے یہ قرض لیا جا رہا ہے۔ تعلیم، رہائش یا چھوٹے کاروبار کے لیے قرض مستقبل کے لیے جائیداد یعنی معاشی سیکورٹی دینے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن فوری مصرف کے لیے حاصل قرض کسی طرح کی پروڈکٹیویٹی صلاحیت نہیں بناتے۔ جیسے جیسے کنبہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ انفرادی قرض اور کریڈٹ کارڈ بلوں کی ادائیگی میں لگاتے ہیں، ان کے پاس بچت یا سرمایہ کاری کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے، یا وہ بھی نہیں۔ اس روش کے پیچھے آسان ڈیجیٹل قرض، کریڈٹ کارڈ کی بہ آسانی حصولیابی اور جارحانہ کنزیومر فائنانس مارکیٹ بڑی وجہ ہے۔ چھوٹے قرض بہت آسان ضرور ہو گئے ہیں، لیکن یہ سہولت ممکنہ بحران کو چھپا لیتی ہے۔ ایسے کنبوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے جو صرف جنرل اسٹور والے سامان، روزمرہ استعمال والے بل، اسکول فیس یا صحت خدمات جیسے عام خرچوں کی ادائیگی کے لیے قرض لے رہے ہیں۔


اسے گولڈ لون کی بڑھتی تعداد سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وسط 2023 اور وسط 2025 کے درمیان گولڈ لون پورٹ فولیو 2 گنے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ جولائی 2025 میں گولڈ لون کا شرح اضافہ 122 فیصد تھا۔ ان میں سے بیشتر گولڈ لون 2.5 لاکھ روپے سے کم کے ہیں، جن کے لیے ریزرو بینک نے اصولوں میں نرمی دی ہے۔ قدر کم ہے اور ’لون-ٹو-ویلیو‘ تناسب 85 فیصد تک ہو سکتا ہے۔

لیکن ریزرو بینک کو مائیکرو فائنانس میں بڑھتے خراب قرضوں کی بھی جانکاری ہے اور اس نے وہاں ریگولیشن سخت کر دیے ہیں۔ اسی مدت میں مائیکرو فائنانس بقایہ میں 16.5 فیصد کی گراوٹ آئی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ گولڈ لون میں ہوئے اضافہ کا کچھ حصہ متبادل کی شکل میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذیلی اور متوسط آمدنی والے کنبے جو پہلے ایم ایف آئی یا محفوظ قرض پر منحصر تھے، اب گولڈ لون کی طرف رخ کر رہے ہیں، جسے سونے کی بڑھتی قیمتوں سے بھی فروغ ملا ہے۔ اگلے کچھ سالوں میں گولڈ لون کا شرحِ اضافہ 15 فیصد فی سال سے زیادہ ہونے کی امید ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب مالیاتی گہرائی نہیں ہے، یہ اشارہ دیتا ہے کہ کنبے اپنی آخری بچت کو مصرف کے فائنانسنگ یا دیگر قرضوں کی ادائیگی کے لیے نکال رہے ہیں۔ گولڈ لون میں اضافہ ایک فکر انگیز حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک سیکورٹی شیلڈ بھی ہے اور خطرے کا اشارہ بھی۔


بڑھتے گھریلو قرض کے ساتھ ساتھ 2 دیگر واقعات بھی فکر کا موضوع ہیں۔ مہنگائی پر مبنی شرائط میں دیہی اجرت جمود کا شکار رہی ہے۔ شہری زندگی کے خرچ بڑھ رہے ہیں اور قرض اس سے نمٹنے کا ایک ’آسان‘ طریقہ بن گیا ہے۔ دوسری فکر انگیز بات کنبوں کی مالی بچت میں لگاتار گراوٹ ہے۔ خالص مالی بچت مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کے 11 فیصد سے گھٹ کر مالی سال 2023 میں صرف 5 فیصد رہ گیا ہے۔ گزشتہ 2 سالوں میں اس میں ضرور تھوڑی بہتری ہوئی ہے۔ یہ گھریلو بچت ہی ہے جو حکومتوں کی مالی ضرورتوں اور کمپنیوں کی قرض سے متعلق ضروریات کی حمایت کرتی ہے۔ اس لیے بچت میں گراوٹ کا مطلب ہے کہ ان کی فائنانسنگ مہنگی پڑنے جا رہی ہے۔

ان میں سے کچھ تبدیلی بدلتے قرض کے کلچر کا بھی مظہر ہے۔ مجموعی بچت شرح 36 فیصد کی اونچائی سے گھٹ کر جی ڈی پی کے تقریباً 30 فیصد پر آ گئی ہے۔ لوگ اعلیٰ طرز زندگی کے خواہشمند ہو رہے ہیں۔ ڈیجیٹل قرض آسانی سے دستیاب ہے، اور غالباً وبا کے بعد فوری خوشیوں کی تلاش کا نیا دور بھی چل پڑا ہے۔ گزشتہ 5 سالوں سے کنزیومر قرض مجموعی بینک قرض میں اضافہ سے آگے نکل رہے ہیں۔ تقریباً 55 فیصد گھریلو قرض غیر رہائشی یا ضروری استعمال والی چیزوں کے لیے لیے جانے والے قرض ہیں۔ 13 سالوں میں کریڈٹ کارڈ خرچ 13 گنا بڑھ گیا ہے اور استعمال میں آنے والے کریڈٹ کارڈ کی تعداد 5 گنا ہو گئی ہے۔ نوجوان تنخواہ پانے والے صارفین موجودہ طرز زندگی بنائے رکھنے کے لیے مستقبل کی آمدنی پر کثیر مقدار میں قرض لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ٹھہری ہوئی آمدنی کی پریشانی برداشت کر رہے ذیلی آمدنی والے اور دیہی کنبے ضروری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے گولڈ لون اور چھوٹے انفرادی قرضوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔


اس گراوٹ کو پلٹنے کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ معاشی بچت کی عادت کی طرف لوٹا جائے، بلکہ حقیقی آمدنی بڑھاتے ہوئے یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ قرض کا پیسہ مستقبل کی جائیداد کھڑی کرے، نہ کہ محض فوری استعمال میں سمٹ جائے۔ جارحانہ صارفیت قرض کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ تعلیم، رہائش اور چھوٹے کاروباروں کو بھی حوصلہ بخشنا ہوگا۔ ہندوستان کے کنبے جو کبھی ترقی اور حکومت، دونوں کے لیے خاموش فائنانسر تھے، ان کی مالی حالت کو واپس بحال کرنا ہوگا۔ انھیں زیادہ قرض لے کر مالی بحران میں دھکیلنے کی جگہ احتیاط کم خرچ کے روایتی اقدار کی طرف لوٹنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار مشہور ماہر معیشت ہیں۔ بشکریہ ’دی بلین پریس‘)