وقف ترمیمی بل 2024: اس بل سے کس کا فائدہ؟... فیضان مصطفیٰ
حوا کھڑا کیا گیا کہ وقف ٹریبونل کے فیصلے آخری ہوتے ہیں، جبکہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دفعہ (3)85 کے تحت ہندو بندوبستی ٹریبونل کا فیصلہ واقعی آخری ہوتا ہے۔
تصویر سوشل میڈیا
لوک سبھا میں 8 اگست کو پیش کیے گئے ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ کی غیر جانبدارانہ تحقیق ضروری ہے، جس سے اس کی خاص باتوں کو سمجھا جا سکے اور یہ دیکھا جا سکے کہ یہ وقف جائیدادوں کی صلاحیت اور اس کا مینجمنٹ بہتر بناتا ہے یا ’ایک ملک، ایک قانون‘ کے مقصد کو اس معنی میں نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کے التزامات بہار ہندو مذہبی ٹرسٹ ایکٹ 1950، تمل ناڈو ہندو مذہب اور مذہبی امور بندوبستی ایکٹ 1959، اور آندھرا پردیش مذہبی امور و ہندو مذہبی ادارہ و بندوبستی ایکٹ 1987 (تلنگانہ پر بھی نافذ) جیسے یکساں قوانین سے الگ ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ وقف ’ٹرسٹ‘ سے الگ ہوتا ہے۔ ٹرسٹ قانون کے برعکس (کچھ حد تک حنفی طبقہ کے معاملے کو چھوڑ کر) وقف کے بانی اس سے کوئی فائدہ نہیں لے سکتے۔ اس کے علاوہ ٹرسٹوں کے برعکس وقف ابدی، ناقابل تغیر اور ناقابل تقسیم ہوتا ہ۔ ساتھ ہی ٹرسٹ میں رکھی گئی ملکیت ٹرسٹی کے پاس ہوتی ہے، جبکہ وقف میں رکھی گئی ملکیت ’اللہ‘ کے پاس ہوتی ہے۔
’وقف‘ اسلام میں امداد کا سب سے واضح طریقہ ہے اور دولت کی تقسیم کا ایک طریقہ ہے۔ وقف کے ذریعہ کوئی شخص کسی ملکیت کو اللہ کے نام وقف کرتا ہے اور اس کا استعمال ہمیشہ کے لیے مذہبی امور کے لیے ہوتا ہے۔ قرآن میں بے شک وقف کا ذکر نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں۔ قرآن میں کم از کم 20 آیتیں ہیں جو لوگوں کو اپنی دولت عطیہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی مسلم حاکموں نے مساجد، مدارس، یتیم خانوں، قبرستانوں وغیرہ کے رکھ رکھاؤ کے لیے فراخ دلی سے ’اوقاف‘ بنائے۔ وقف جائیدادوں کے خراب مینجمنٹ سے نمٹنے کے سلسلے میں تاریخی دستاویزات میں پایا جاتا ہے کہ علاء الدین خلجی (1316-1296) نے بدعنوان متولی (وقف ملکیت کے مینجمنٹ) کو سزا دی تھی۔ اکبر کے وقت میں اوقاف معاملوں میں رشوت لینے کی وجہ سے کئی قاضی (ججوں) کی خدمات ختم کر دی گئی تھیں۔ ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ اوپری طور پر تو ملک کے وقف بورڈس کی مبینہ بدعنوان روایتوں سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے، لیکن اسے باریکی سے پڑھنے پر کئی دقتوں والے التزامات سامنے آتے ہیں جو وقف مینجمنٹ کو برباد کر سکتے ہیں، اور ان وقف جائیدوں کو پھر سے حاصل کرنا عملی طور پر ناممکن بناتے ہیں جہاں ان پر قبضہ حکومت نے کر رکھا ہو۔ یہ غلط بات پھیلائی گئی ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی ملکیت کو وقف قرار دے سکتا ہے۔ اس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں۔ سبھی وقف جائیدادیں عطیہ دینے سے پہلے ذاتی جائیدادیں ہوتی ہیں۔
ترامیم میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں۔ اس کی دفعہ 3 اے کہتی ہے کہ صرف ایک جائز مالک ہی وقف بنا سکتا ہے۔ اسلام بھی یہی حکم دیتا ہے۔ دفعہ 3 آر (4) میں بیوہ، طلاق شدہ خواتین اور یتیموں کی پرورش کا ذکر ہے جو اچھی بات ہے، لیکن یہ مقصد پہلے سے ہی مسلم قانون کے ذریعہ منظور شدہ فلاح اور ایسے دیگر مقاصد کے تحت آتے تھے۔
حالانکہ 1954 اور 1995 کے وقف ایکٹ میں صرف مسلمانوں کو ہی اوقاف بنانے کی اجازت تھی، لیکن 2013 کی ترمیم نے اس غیر واجب پابندی کو ہٹا دی۔ 2024 کے بل نے دفعہ 104 کو ہٹا کر اسے مزید سخت بناتے ہوئے پہلے کی اس پابندی کو واپس لا دیا ہے جس میں زور دیا گیا ہے کہ صرف وہی شخص وقف بنا سکتا ہے جو 5 سال سے مسلمان ہو۔ یہ غیر مسلموں کے مالکانہ حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، کیونکہ انھیں اپنی ملکیت کے ساتھ جو چاہے کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
نئے بل میں ’استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف‘ کو ختم کرنے کی تجویز ہے۔ ویسے، یہ التزام بابری مسجد کے فیصلے (2019) کے بھی خلاف ہے جس میں عدالت نے واضح طور سے استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف کے نظریہ کو منظوری دی جب عدالت نے کہا کہ ’ہمارا علم انصاف (فقہ) استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف کے اصول کو منظوری دیتا ہے، بھلے ہی وقف یا اعلان کا کوئی واضح قرار نہ ہو۔ طویل مدت تک استعمال والی کوئی ملکیت وقف ہے یا نہیں، یہ ثبوت کا موضوع ہے‘۔
بیشتر پرانے قبرستان استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف کیے گئے ہیں اور ان کے پاس وقف قرار (دستاویز) نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ قدیم استعمال کے نظریہ کو برٹش جنرل لاء اور ہندو بندوبستی قوانین کے تحت منظوری ملی ہوئی ہے۔ استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف کو بنگال 1934 اور بہار 1947 کے وقف ایکٹ، اتر پردیش مسلم وقف ایکٹ 1960 اور (مرکزی) وقف ایکٹ 1954 کے ذریعہ منظوری دی گئی تھی۔
وقف ٹریبونل کو ناحق کمزور کر دیا گیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کو ٹریبونلز پر اتنا عدم اعتماد کیوں ہے، جبکہ سبھی ٹریبونل اراکین کی تقرری وہی کرتی ہے۔ قصداً یہ حوا کھڑا کیا گیا کہ وقف ٹریبونل کے فیصلے آخری ہوتے ہیں۔ جبکہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دفعہ (3)85 کے تحت ہندو بندوبستی ٹریبونل کا فیصلہ حقیقی معنوں میں آخری ہوتا ہے۔ تمل ناڈو میں 79-اے(3) کے تحت بندوبستی کے جوائنٹ کمشنر کے ذریعہ لیے گئے فیصلے کو چیلنج نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری طرف 1995 کے وقف قانون کے تحت ہائی کورٹ خود کسی معاملے کو اپنے پاس منتقل کر سکتا ہے، اور پھر کسی بھی متاثرہ فریق کو ہائی کورٹ میں ٹریبونل کے فیصلوں کو چیلنج دینے کا حق تو ہے ہی۔ اس کے علاوہ جہاں ہندو بندوبستی ریاستی ایکٹ کے ماتحت ہوتی ہے، اوقاف مرکزی ایکٹ 1954 کے ماتحت ہوتا ہے، بھلے ہی اراضی ریاست کا سبجیکٹ ہے۔ نیا بل ریاستوں کو وقف اصول بنانے کی طاقت سے بھی محروم کرتا ہے۔
اب آتے ہیں خاندانی وقف پر۔ اسلام کسی کے ذریعہ اپنے کنبہ پر خرچ کرنے کو سب سے اچھا استعمال مانتا ہے۔ خاندانی وقف کا استعمال اسلامی جانشیں قوانین کے مسائل کو دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے، جیسے داداؤں کو یتیم پوتے و پوتیوں کے حق میں اپنی ملکیت کا ایک تہائی حصہ وقف کرنے کی اجازت دینا۔
کئی مسلم ممالک نے خاندانی وقف کو ختم کر دیا ہے، یا اسے صرف دو نسلوں تک محدود کر دیا ہے۔ اگر وقف بل خاندانی وقف کو ختم کر دیتا یا اسے دو نسلوں تک محدود کر دیتا تو یہ شرطیہ ایک بڑا اصلاح ہوتا۔ اس کی جگہ بل میں تجویز کی گئی ہے کہ خاندانی وقف کی وجہ سے خواتین سمیت کسی بھی جانشیں کو اس کے وراثتی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہ اس حد تک قابل استقبال ہے کہ اب ایک مسلمان اپنی ملکیت کے صرف ایک تہائی حصے کے لیے خاندانی وقف بنا سکتا ہے، اگر وہ اپنے جانشیں کو بے دخل کر رہا ہے اور وہ خاتون جانشینوں کو پوری طرح بے دخل نہیں کر سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ خاتون جانشینوں کو مسلم جانشیں ایکٹ کے تحت ملنے والے فائدہ سے بہت کم فائدہ بھی دیتا ہے تو ایسا خاندانی وقف اب بھی جائز ہوگا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے وصیت کرنے کے حقوق پر یکساں پابندی نہیں ہے۔ مثال کے لیے ہندو جانشیں ایکٹ 1955 کے تحت ایک ہندو اپنی پوری ملکیت اپنے بیٹے کو دے سکتا ہے جس میں خاتون جانشینوں سمیت دیگر جانشینوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
وقف ایک مسلم کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس لیے اس کی مذہبی آزادی کا حصہ ہے۔ کچھ منتظمین کی بدعنوانی اور خراب مینجمنٹ کی وجہ سے وقف کے پورے ادارہ کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ کیا حکومت میں کوئی بدعنوان نہیں؟
(مضمون نگار فیضان مصطفیٰ آئین و قانون کے ماہر ہیں اور مضمون میں ان کے ذاتی نظریات شامل ہیں۔ طویل صورت میں یہ مضمون بنیادی طور پر (فرنٹ لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔