بہار میں ووٹر لسٹ کا تنازعہ: نو غلط فہمیاں اور ایک تلخ حقیقت...یوگیندر یادو
بہار میں ووٹر لسٹ کی مکمل ازسرنو تیاری پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کروڑوں شہری شہریت کے کاغذات نہ ہونے کے باعث ووٹ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں

علامتی تصویر
پہلی غلط فہمی: الیکشن کمیشن بہار کی ووٹر لسٹ کی گہری جانچ اور اصلاح کر رہا ہے۔
حقیقت: جی نہیں۔ بہار میں فی الحال جاری ووٹر لسٹ کی کوئی اصلاح نہیں کی جا رہی۔ پرانی فہرست کو منسوخ کر کے اب ووٹر لسٹ نئے سرے سے تیار کی جائے گی۔
دوسری غلط فہمی: اس طرح کی نظرثانی پہلے بھی دس بار ہو چکی ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں۔
حقیقت: ایسا بالکل نہیں ہے۔ جو کچھ اس بار ہو رہا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کمپیوٹرائزیشن کے بعد ووٹر لسٹ کو نئے سرے سے تیار کرنے کی ضرورت تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ یہ 22 سال بعد پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے ووٹر پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی تھی کہ وہ خود اپنا نام درج کرائے۔ پہلے کبھی ووٹر سے شہریت کے ثبوت کے کاغذات نہیں مانگے گئے تھے، نہ ہی کبھی انتخابات سے چار مہینے پہلے مکمل نئی فہرست بنانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔
تیسری غلط فہمی: بہار کی ووٹر لسٹ میں بہت زیادہ گڑبڑ تھی، اس لیے ایسا کرنا پڑا۔
حقیقت: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ صرف چھ ماہ قبل ہی بہار میں ووٹر لسٹ کا جائزہ لیا گیا تھا، جس میں لاکھوں نئے نام جوڑے اور ہٹائے گئے تھے۔ جنوری میں نئی فہرست شائع بھی ہو چکی ہے۔ کہیں سے کسی بڑی گڑبڑی کی شکایت نہیں آئی تھی۔ اگر کچھ کمی رہ گئی تھی تو اس کے لیے مزید اصلاح کی جا سکتی تھی۔ موجودہ فہرست کو مسترد کر کے نیا عمل شروع کرنے کی کوئی مانگ یا ضرورت نہیں تھی۔
چوتھی غلط فہمی: جن لوگوں کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں تھے، انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
حقیقت: جی نہیں۔ ہر شخص کو نیا فارم بھرنا پڑے گا۔ صرف انہی افراد کو تھوڑی چھوٹ دی جائے گی جن کا نام، والد کا نام اور پتہ 2003 اور جنوری 2025 کی فہرستوں میں بالکل ایک جیسا ہو۔ انہیں صرف تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے ثبوت سے چھوٹ ملے گی لیکن فارم، تصویر، دستخط اور 2003 کی لسٹ میں موجود اپنے نام والے صفحے کی فوٹو کاپی سب کو دینی ہوگی۔
پانچویں غلط فہمی: شہریت کا ثبوت صرف انہی سے مانگا جائے گا جن پر شک ہو۔
حقیقت: جی نہیں۔ جن کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں نہیں ہے، ان سب کو شہریت کا ثبوت دینا ہوگا۔ جو یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے ہیں، انہیں صرف اپنی پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔ جو یکم جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوئے، انہیں اپنے یا والدین میں سے کسی ایک کا ثبوت دینا ہوگا۔ اسی طرح، 2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کو خود اور اپنے دونوں والدین کا ثبوت دینا ہوگا۔ اگر والدین کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں موجود ہوں تو اس صفحے کی فوٹو کاپی سے کام چل سکتا ہے لیکن پھر بھی فرد کو اپنی پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔
چھٹی غلط فہمی: الیکشن کمیشن نے شہریت کے لیے کئی متبادل دستاویزات تسلیم کیے ہیں، ہر گھر میں کچھ نہ کچھ موجود ہوگا۔
حقیقت: ایسا بالکل نہیں ہے۔ عام طور پر ہر گھر میں موجود دستاویزات جیسے آدھار کارڈ، راشن کارڈ، ووٹر کارڈ، یا منریگا جاب کارڈ کو الیکشن کمیشن نہیں مان رہا۔ کمیشن نے 11 ایسے دستاویزات کی فہرست دی ہے جن میں سے زیادہ تر یا تو بہار کے لوگوں کے پاس ہوتے ہی نہیں یا بہت کم فیصد میں ہوتے ہیں۔ مثلاً پاسپورٹ، صرف 2.4 فیصد کے پاس، پیدائش کا سرٹیفکیٹ صرف 2.8 فیصد کے پاس، سرکاری ملازمین کا شناختی کارڈ یا پنشن کارڈ صرف 5 فیصد، ذات کا سرٹیفکیٹ صرف 16 فیصد کے پاس اور میٹرک یا ڈگری کا سرٹیفکیٹ بھی صرف 50 فیصد سے بھی کم لوگوں کے پاس ہے۔
ساتویں غلط فہمی: قوانین سب کے لیے برابر ہیں، اس میں کوئی امتیاز نہیں۔
حقیقت: یہ صرف کاغذ پر ہے۔ حقیقت میں جو لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ عورتیں، غریب، مہاجر مزدور، دلت، آدیواسی اور پسماندہ طبقات شہریت کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے لسٹ سے باہر ہو سکتے ہیں۔ اس طرح تعلیم کو غیر اعلانیہ طور پر شہریت کی شرط بنا دیا گیا ہے۔
آٹھویں غلط فہمی: الیکشن کمیشن نے تین ماہ کا وقت دیا ہے، سب کا اندراج ہو جائے گا۔
حقیقت: جی نہیں، اصل وقت صرف ایک مہینہ ہے یعنی 25 جولائی تک۔ باقی کے دو مہینے صرف اعتراضات کے ازالے اور الیکشن کمیشن کی اندرونی کاغذی کارروائی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس پہلے مہینے میں الیکشن کمیشن کی توقع ہے کہ تمام بوتھ لیول افسران کی تربیت مکمل ہو جائے گی، حالانکہ ان میں سے 20 ہزار کی ابھی تک تقرری بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ افسران سیاسی جماعتوں کے ایجنٹوں کی تربیت بھی کر دیں گے، ہر گھر میں نئے فارم پہنچا دیے جائیں گے، ہر شخص وہ فارم بھر کر مطلوبہ دستاویزات لگا دے گا، بھرے ہوئے فارم ہر گھر سے جمع کر لیے جائیں گے، پھر انہیں کمپیوٹر پر اپلوڈ کر کے ان کی جانچ کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔ یعنی جس کسی کا فارم 25 جولائی تک جمع نہیں ہوا، اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہی نہیں کیا جائے گا۔
نویں غلط فہمی: اس نظرثانی سے بنگلہ دیشی دراندازوں کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
حقیقت: نہیں، اگر بہار میں غیر قانونی غیر ملکی شہری موجود ہیں تو وہ زیادہ تر نیپالی ہیں نہ کہ بنگلہ دیشی۔ نیپالی زیادہ تر ہندو ہیں اور ان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ کچھ ہزار بنگلہ دیشی اور کئی ہزار نیپالی ووٹر لسٹ سے ہٹ جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ڈھائی کروڑ ہندوستانی شہری بھی اس فہرست سے خارج ہو سکتے ہیں۔ مکھی مارنے کے لیے ناک پر ہتھوڑا نہیں مارا جاتا!
آخری اور تلخ حقیقت:
بہار کی کل آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے، جن میں سے 8 کروڑ بالغ افراد ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے اہل ہیں۔ ان میں صرف 3 کروڑ ایسے افراد ہیں جن کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں موجود تھا۔ باقی 5 کروڑ لوگوں کو شہریت کے دستاویزات دینے ہوں گے، جن میں سے تقریباً آدھے لوگوں کے پاس وہ مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس 'خصوصی گہرے جائزے' کی آڑ میں کروڑوں افراد سے ان کا بنیادی ’ووٹ دینے کا حق‘ چھین لیا جائے گا۔ پہلے ’نوٹ بندی‘ ہوئی، پھر کووڈ میں ’ملک بندی‘، اور اب ’ووٹ بندی‘ کی تیاری ہے۔
(بشکریہ نودیہ ٹائمز)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔