واجپئی نے جب اپنے خطاب سے لاہور فتح کیا 

لاہور کا خطاب سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ واجپئی کے پاس خطابت کا کتنا بڑا ہتھیار ہے اور وہ اپنے اس ہتھیار سے بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کر دیتے تھے۔

واجپئی واگھہ پر بس سے اترتے ہوئے(فائل تصویر)
واجپئی واگھہ پر بس سے اترتے ہوئے(فائل تصویر)
user

سید خرم رضا

فروری کے سہانے موسم میں ہم صحافی پاکستان میں واگھہ سرحد پر ہندوستان کی اس تاریخی بس ’’صدائے سرحد‘‘ کا انتظار کر رہے تھے جس میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو آنا تھا۔ دوپہر سے تھوڑا پہلے ہمیں پوری سیکورٹی میں واگھہ سرحد پر لایا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ تاریخی لمحہ آیا جب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی ہندوستان۔پاکستان سرحد پر بذریعہ بس پہنچے۔ واجپئی نے بس سے اتر کر لوگوں کا ہاتھ ہلا کر استقبال کیا۔ پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمشنر جی پارتھاسارتھی اور وزارت خارجہ کے سینئر افسر کے سی سنگھ کےچہروں پر تناؤ صاف نظر آ رہا تھا، ان کو فکر تھی کہ بس سارے انتظامات ٹھیک ٹھاک پورے ہو جائیں۔

واگھہ سے ہمیں لاہور کے گورنر ہاؤس جانا تھا۔ واپسی پر جگہ جگہ ہمیں احتجاج اور مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی جماعت اسلامی اور اس کے طلبا ء ونگ کی جانب سے یہ مظاہرہ کئے جا رہے تھے لیکن یہ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے پاکستانی ایجنسیاں ہیں۔

گورنر ہاؤس پہنچ کر جو نظارہ دیکھنے کو ملا ویسا اپنی زندگی میں تو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنی زندگی میں کبھی پہلے اتنی ساری کالی مرسیڈیز کاریں ایک جگہ پر نہیں دیکھی تھیں۔ ایک کے بعد ایک وزیر کالی مرسیڈیز سے اتر رہے تھے۔ واجپئی کےگورنر ہاؤس میں آنے سے پہلے ہم تمام لوگوں نے اپنی نشستیں لے لی تھیں۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب اٹل بہاری واجپئی نے اپنا خطاب شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے سامعین پر ایک جادو کر دیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا خطاب نہیں سنا تھا۔ واجپئی کے بعد اگر کسی کے خطاب نے مجھے متاثر کیا ہے تو وہ ہے امریکہ کے سابق صدر اوبامہ کا وہ خطاب جو انہوں نے قاہرہ میں دیا تھا۔

مجھے یاد نہیں کے واجپئی نے کتنی دیر تک خطاب کیا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا خطاب خاصہ طویل تھا لیکن سامعین پر ایسا سحر طاری تھا کہ ان کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وقت کیسے گزر گیا۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سحرکو، کس طرح وہاں موجود لوگ ان کے خطاب کی تعریف کر رہے تھے ۔ ہندوستان سے آئے وفد کے لوگوں کے سینے تو چوڑے ہو ہی گئے تھے لیکن میزبان کا بھی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا۔

واجپئی کی تقریر کے بعد مجھے اس بات کا تو احساس ہو گیا تھا کہ صبح کے اخبارات کے لئے بہت سی سرخیاں مل گئی ہیں۔ ان کی تقریر نے میرے لئے بھی پریشانی کھڑی کر دی تھی کہ میں ان کی تقریر کے کون سے حصہ سے اپنی خبر شروع کروں کیونکہ ان کا خطاب باکمال تھا۔

اس تاریخی موقع پر میں ، ترن وجے وغیرہ واگھہ سرحد پر اس تاریخی بس کے ساتھ
اس تاریخی موقع پر میں ، ترن وجے وغیرہ واگھہ سرحد پر اس تاریخی بس کے ساتھ

اس دن مجھے احساس ہوا کہ واجپئی کے پاس خطابت کا کتنا بڑا ہتھیار ہے اور وہ اپنے اس ہتھیار سے بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کر دیتے تھے۔ دن میں ہوئے مظاہروں کا اب کوئی ذکر نہیں تھا، اب صرف واجپئی کے خطابت کا ہر طرف ذکر تھا۔ اگر کوئی بات ہو رہی تھی تو یہ ہو رہی تھی کہ واجپئی نے کیا خوب خطاب کیا ۔

اس خطاب کے بعد صحافیوں کو دونوں وزراء اعظم کی مشترکہ کانفرنس کے لئے لے جایا گیااور یہاں بھی واجپئی نے ایک مرتبہ پھر اپنے سحر زدہ جوابات سے ہندوستان مخالف پاکستانی میڈیا کو اپنا دوست بنا لیا۔

سال 2004 میں ان کی شکست سے یہ اشارہ ضرور ملا کہ وہ وزیر اعظم کے طور پر اتنے کامیاب نہیں تھے۔ ان کے کئی فیصلوں پر سوال ہمیشہ اٹھائے جاتے رہیں گے۔ قندھار کا واقعہ ہو یا سال 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات ہوں ، یہ ایسے واقعات ہیں جو ہمیشہ ان کے دور اقتدار پر سوال کھڑے کرتے رہیں گےلیکن اس حقیقت کو بھی کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا کہ وہ ایک بہترین مقرر تھے۔

جو بھی ہو 20 فروری1999 کی اس شام واجپئی ایک فاتح کی شکل میں ابھرے تھے اور انہوں نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے تھے۔

اس سفر میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس کا ذکر کئے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ پہلی مرتبہ رپورٹنگ کے لئے میں بیرون ملک گیا تھا لیکن لاہور پہنچنے کے بعد مجھے بالکل محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی دوسرے ملک میں آیا ہوں اور مجھے ایسا لگا جیسے میں ہندوستان کی ریاست پنجاب کے کسی دوسرے شہرسے ہی رپورٹنگ کر رہا ہوں کیونکہ یہاں پرپنجابی بولے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا۔19 فروری کو لاہور کے پرل ہوٹل میں چیک ان کرنے کے بعد کچھ صحافیوں نے انار کلی بازار جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور میزبان نے اس کا انتظام کیا اور اس کی ذمہ داری دو خوبصورت خواتین کو دی گئی ۔ میں اپنے سکھ دوست روی رنجن سنگھ کے ساتھ بس سے اتر کر بازار کی جانب جا رہا تھا کہ اچانک ایک نوجوان سائیکل پر سامنے آ کر رکا اور روی کے ہاتھ میں کڑے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے چھوٹے بچے کی طرح درخواست کرنے لگا کہ ’’پا جی اے مینو دے داں‘‘۔ اس نے بتایا کہ اس کے بڑوں نے ا سے یہ کڑا پہننے کے لئے کہا تھا اور یہاں گردواروں میں اس کو اپنے سائز کا نہیں ملا ، آپ کا یہ کڑا میرے ہاتھ میں صحیح آئے گا۔ روی نےوہ لوہے کا کڑا اسے دے دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Aug 2018, 6:48 AM
/* */