اتراکھنڈ میں قدرتی آفات یا انسانی نادانی؟
اتراکھنڈ میں بادل پھٹنے، زمین کھسکنے اور جھیل پھٹنے سے دیہات بہہ گئے اور جانی نقصان بھی ہوا۔ ماہرین نے بےقابو تعمیرات، قوانین کی خلاف ورزی اور ماحولیات کو نظرانداز کرنے کو اس کا بڑا سبب قرار دیا ہے

اتراکھنڈ ایک بار پھر آفات کی زد میں ہے۔ مسلسل زمین کھسکنے اور بادل پھٹنے کے واقعات نے عام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے ریاست ایک کے بعد ایک قدرتی آفت سے نبردآزما ہے۔
تازہ ترین واقعہ 5 اگست کو پیش آیا، جب کھیر گنگا ندی میں اچانک آئے تباہ کن سیلاب نے گنگوتری یاترا روٹ پر واقع دلکش گاؤں دھرالی کو بہا دیا۔ قریب ہی کا گاؤں ہرسل بھی محفوظ نہ رہ سکا، جہاں فوج کا بیس کیمپ زمین کھسکنے کی زد میں آیا۔ ایک جے سی او سمیت کئی فوجی لاپتہ ہیں۔ اس وقت تک چار ہلاکتوں اور سو سے زائد لاپتا افراد کی اطلاع ہے۔
ماہرین کے مطابق اس تباہی کا سبب صرف بارش نہیں۔ ابتدائی اندازہ تھا کہ بادل پھٹنے سے یہ سیلاب آیا لیکن محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار میں دھرالی اور ہرسل (صرف 6.5 ملی میٹر) میں بارش کی مقدار انتہائی کم پائی گئی۔ اس لیے زیادہ امکان یہ ہے کہ کسی گلیشیائی جھیل کے پھٹنے (جی ایل او ایف) یا گلیشیائی ٹکڑے گرنے سے یہ سیلاب آیا، جیسا کہ 2013 کے کیدارناتھ سانحہ میں ہوا تھا۔ ریاست میں ایسی 1268 جھیلیں موجود ہیں، جو ممکنہ خطرہ ہیں۔
پروفیسر وائی پی سندریال سوال اٹھاتے ہیں کہ کھیر گنگا کے کنارے 45 سے زائد ہوٹل اور کمرشل عمارتوں کی اجازت کس نے دی؟ قانون کے تحت فلڈ زون اور واٹر کیچمنٹ ایریاز میں تعمیرات ممنوع ہیں لیکن اتراکھنڈ میں بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
روایتی طور پر بستیاں دریا کے کنارے سے محفوظ فاصلے اور بلندی پر آباد کی جاتی تھیں لیکن آج کاروباری مفاد اور سیاحتی دباؤ کے آگے ماحولیاتی اصول نظرانداز ہو رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ندی ایک دن اپنے اصل بہاؤ میں لوٹتی ہے اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر جتندر (یو ایس ڈی ایم اے) کے مطابق، انتظامیہ کا کردار صرف آفت کے بعد ڈیمج کنٹرول تک محدود ہے، جبکہ بروقت نگرانی اور قوانین کا نفاذ ہی بڑے نقصان کو روک سکتا ہے۔
ماہرین نے گومکھ سے اترکاشی تک پورے خطے کو ماحولیاتی طور پر حساس قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن سیاسی قیادت ترقی کے نام پر سڑک، ہوٹل اور بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے، چاہے پہاڑوں کی برداشت سے کہیں زیادہ بوجھ کیوں نہ ڈال دیا جائے۔ یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا، بلکہ برسوں کی بے قابو تعمیرات اور ماحولیاتی قوانین کی نظراندازی کا نتیجہ ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں انتباہ دیا کہ اگر یہی روش جاری رہی تو ہمالیائی ریاستیں نقشے سے مٹ سکتی ہیں۔
روپ وے: بچائیں گے یا مزید تباہی لائیں گے؟
ریاستی حکومت روپ وے کے ذریعے ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنا چاہتی ہے۔ ایسی ہی ایک منصوبہ بندی اس وقت دیہرادون کے پرکُل گاؤں سے مسوری کے بس اڈے تک جاری ہے۔ یہ منصوبہ فرانسیسی کمپنی پوما ایس اے ایس اور ایف آئی ایل انڈسٹریز لمیٹڈ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت 350 کروڑ روپے سے زائد کی تخمینہ لاگت پر سونپی گئی ہے۔ اس میں تقریباً ساڑھے پانچ کلومیٹر طویل فضائی مسافر روپ وے سسٹم تعمیر کیا جا رہا ہے۔
اس میں دو ٹرمینل ہوں گے — ایک دیہرادون میں اور دوسرا مسوری میں۔ پرکُل میں 2,000 گاڑیوں کی گنجائش والی دس منزلہ وسیع پارکنگ بھی بنائی جائے گی۔ یہ منصوبہ ستمبر 2026 تک مکمل ہونے کی امید ہے، لیکن پرکُل کے مقامی لوگ اس کے مخالف ہیں۔ ادیبہ مدھو گروُنگ کہتی ہیں کہ پرکُل، دیہرادون کے باقی ماندہ قدیم اور پُرسکون علاقوں میں سے ایک ہے۔ ان کی تشویش ہے، ’’اب بڑے پیمانے پر تعمیرات کے بیچ یہ سب ختم ہو جائے گا… آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب یہاں روزانہ ہزاروں گاڑیاں پارک ہوں گی، تو شور اور آلودگی کس حد تک بڑھے گی۔‘‘
یہ تو صرف ایک مثال ہے… حکومت نے پوری ریاست میں ایسے 65 روپ وے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، جن میں سون پریاگ-کیدارناتھ اور گووند گھاٹ-ہیم کنڈ صاحب کو جوڑنے والے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ خَرسالی-یمُنو تری روپ وے کو پہلے ہی منظوری مل چکی ہے اور کام سونپ دیا گیا ہے۔ 1,200 کروڑ روپے لاگت والے اس منصوبے کی بنیاد 2011 میں اُس وقت کے بی جے پی صدر نتن گڈکری نے رکھی تھی۔
خوش قسمتی سے اس میں کئی سال تاخیر ہوئی کیونکہ 3.8 ہیکٹر گھنے جنگل کی زمین کو وزارتِ ماحولیات و جنگلات (ایم او ای ایف) سے ریاستی محکمہ سیاحت کو منتقل ہونا تھا۔ سال 2020 میں ایک بڑا پالیسی بدلاؤ آیا۔ ایم او ایف ایف نے روپ وے منصوبوں کے لیے ماحولیاتی اثرات کے جائزے اور جنگلاتی منظوری کی شرط ختم کر دی۔ یہ فیصلہ اس خطے کی ماحولیاتی نزاکت اور زلزلہ خیزی کے حوالے سے حکومت کی عدم توجہی کو ظاہر کرتا ہے۔
جوشی مٹھ-اولی روپ وے کو ہی دیکھ لیجیے — 4.15 کلومیٹر لمبا اور 450 کروڑ روپے کی لاگت سے بنا یہ روپ وے 7 جنوری 2023 سے بند ہے، کیونکہ جو شی مٹھ میں اس کے لانچنگ پیڈ کے آس پاس گہری دراڑیں پڑ گئیں، جو وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ یہ انفراسٹرکچر سے جڑے بڑے خطرات کو نمایاں کرتا ہے۔
مسوری، نینی تال سمیت زیادہ تر ہل اسٹیشن اسی زمین دھنسنے کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ریاست کیسے پُر اعتماد ہو سکتی ہے کہ ہزاروں کروڑ کے یہ روپ وے بے کار نہیں ہو جائیں گے؟
زلزلہ شناس ڈاکٹر راجن کے مطابق، ایسے روپ وے جن سے ہر گھنٹے 2,000 سے زائد سیاح آ جا سکتے ہیں، ’مڈل ہمالیہ کی کمزور چٹانوں والی پہاڑیوں کے لیے بالکل ناموزوں ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’اب ہمالیہ میں 100 سے زیادہ روپ وے کی بات ہو رہی ہے، لیکن ان کے مجموعی اثرات کا کوئی مطالعہ نہیں۔ یہ روپ وے صرف سیاحوں کی آمد کو بڑھانے کے لیے ہیں، لیکن ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سیاحوں کا دباؤ ان پہاڑوں کی برداشت سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔