اسکول بند کرنے میں اتر پردیش سب سے آگے... ہرجندر

انضمام کے نام پر اس طرح اسکولوں کو بند کرنا تعلیم کے حقوق قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کی دفعہ 6 کہتی ہے کہ درجہ 5-1 تک کے بچوں کا اسکول ان کے گھر سے ایک کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے۔

<div class="paragraphs"><p>یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ / آئی اے این ایس</p></div>

یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ / آئی اے این ایس

user

ہرجندر

جولائی اسکول کھولنے کا مہینہ ہوتا ہے۔ بچوں میں اس تعلق سے جوش بھی ہوتا ہے۔ لیکن لکھنؤ سے 30 کلومیٹر دور موہن لال گنج کے بھروئی گاؤں میں اس مرتبہ جب بچے اپنے اسکول پہنچے تو وہاں تالا لٹکا ہوا ملا۔ پتہ چلا کہ ان کے اسکول کو اب 3 کلومیٹر دور بھوندری کے اسکول میں ضم کر دیا گیا ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو اتنی دور بھیجنے کو تیار نہیں ہیں۔ بھروئی کے بیشتر بچے اب اسکول نہیں جاتے، گاؤں میں ہی مٹرگشتی کرتے ہیں۔

ایسی کہانی ریاست کے ہر ضلع کی ہے۔ 16 جون کو ایڈیشنل چیف سکریٹری فار بیسک ایجوکیشن دیپک کمار نے ریاست کے 10 ہزار اسکولوں کے انضمام کا حکم صادر کیا تھا۔ اسی کے بعد سے یہ کام بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ کم بچوں والے سرکاری اسکولوں کو زیادہ بچوں والے اسکولوں میں ضم کر دیا جائے۔ اصول یہ بنایا گیا ہے کہ جس بھی اسکول میں 50 سے کم بچے ہیں، انھیں زیادہ بچوں والے اسکول میں ضم کر دیا جائے۔


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں 27764 ایسے اسکول ہیں جہاں 50 یا اس سے کم بچے ہیں۔ دیر سویر ان سبھی کا انضمام ہو جائے گا۔ پہلے مرحلہ میں صرف 10 ہزار اسکولوں کا انضمام ہی کیا جا رہا ہے، جس سے سیدھے طور پر 5 ہزار اسکول بند ہو جائیں گے۔ ہر ضلع اور تحصیل میں ایسے اسکولوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ مثال کے لیے لکھنؤ میں 300، پریاگ راج میں 233 اور دیوریا میں 251۔

پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس میں دیے گئے اعداد و شمار کے حساب سے کووڈ وبا کے دوران اتر پردیش میں 25500 سے زیادہ اسکول بند ہو گئے تھے۔ امید تھی کہ حالات معمول پر آنے کے بعد وہ پھر کھل سکیں گے، لیکن وہ کبھی نہیں کھلے۔ اب مزید اسکولوں کو بند کرنے کے لیے حکومت نے کمر کس لی ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ اسکولوں کو ضم کرنے سے تعلیم کے معیار میں بہتری آئے گی۔ کم اسکول ہونے پر سہولیات بڑھائی جا سکیں گی اور ہر درجہ کے لیے ایک الگ ٹیچر دستیاب ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے اسکولوں کا انفراسٹرکچر اور ورک فورس مستحکم ہوگا۔ پتہ نہیں یہ سب کب ہوگا، فی الحال بیشتر گراؤنڈ رپورٹس بتا رہی ہیں کہ جہاں اسکول بند ہوئے ہیں، وہاں بہت چھوٹے بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کو ان کے سرپرستوں نے اسکول بھیجنا بند کر دیا ہے۔ یہ ڈراپ آؤٹ ان مقامات پر زیادہ ہے، جہاں اب بچوں کا نیا اسکول 2 کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور ہے۔


یہ الزام بھی کئی مقامات پر سنائی دیا کہ بند ہونے والے اسکولوں میں بیشتر دلتوں یا مبینہ ذیلی ذاتوں کے گاؤں کے اسکول ہیں۔ حالانکہ اسے لے کر نہ تو کوئی سروے سامنے آیا ہے اور نہ ہی کوئی ڈاٹا موجود ہے، لیکن ایسی کچھ مثالیں ضرور ہیں۔ مثلاً لکھنؤ میں کاکوری تحصیل کے گاؤں چوکری کھیڑا کے اسکول پر اب تالا لٹک رہا ہے۔ اس اسکول کے احاطہ میں اب صرف بابا صاحب امبیڈکر، مہرشی بالمیکی اور گوتم بدھ کی مورتیاں ہی بچی ہیں۔ بچوں کو بڑاکھیڑا کے اسکول میں جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس معاملے میں نوکرشاہی نے بھی اپنا کمال دکھایا ہے۔ بڑاکھیڑا کے اسکول کو بہرو کے اسکول میں ضم کرنے کا حکم آ چکا ہے۔ چوکری کھیڑا کے اسکول میں 31 بچے تھے، جن میں سب اے صرف 8 ہی بہرو کے اسکول میں پہنچ رہے ہیں۔ اس طرح کا ڈراپ آؤٹ ہر جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ جاری رہا تو ’سرو شکشا ابھیان‘ کا راستے سے بھٹک جانا طے ہے۔ ویسے بھی اسکولوں کو اس طرح سے بند کرنا تعلیم کے حق قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کی دفعہ 6 کہتی ہے کہ درجہ 1 سے 5 تک کے بچوں کا اسکول ان کے گھر سے ایک کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح درجہ 6 سے 8 تک کے بچوں کے لیے اسکول ان کے گھر کے 3 کلومیٹر کے دائرے میں ہی ہونا چاہیے۔


کانگریس جنرل سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یو پی اے حکومت نے تعلیم کا حق قانون نافذ کیا تھا۔ اس کے تحت ہر گاؤں میں اسکول کھولے گئے تھے، تاکہ غریب کنبوں کے بچوں کو آسانی سے تعلیم مل سکے۔ اگر اسکول گھر سے بہت دور ہوں گے تو چھوٹے بچے، خصوصاً لڑکیاں کئی کلومیٹر تک پیدل چل کر کیسے اسکول پہنچیں گی؟‘‘ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک ہر جگہ چیلنج دیا جا رہا ہے۔ لیکن وہاں جب تک معاملہ آگے بڑھے گا، بہت سے اسکول بند ہو چکے ہوں گے۔ اس درمیان یہ ضرور ہوا ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سیتاپور کے اسکولوں کے انضمام سے متعلق منصوبہ پر اسٹے آرڈر جاری کر دیا ہے۔

ریاست کی سبھی اپوزیشن پارٹیاں اور اساتذہ تنظیمیں اسکولوں کے انضمام کی زوردار مخالفت کر رہی ہیں۔ اساتذہ تنظیموں نے تو کئی بار اس کے خلاف مظاہرہ بھی کیا ہے۔ انھیں خوف ہے کہ اسکول کم ہوں گے تو اساتذہ کی نئی تقرری کم ہوگی ہی، چھنٹنی کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ اتر پردیش پرائمری ٹیچرس ایسو سی ایشن کے سنیل کمار پانڈے کہتے ہیں ’’اسکولوں کا انضمام ہو رہا ہے، لیکن اساتذہ کا انضمام کیسے ہوگا، یہ ابھی واضح نہیں کیا گیا ہے۔‘‘


اس طرح سے اسکول صرف اتر پردیش میں ہی بند نہیں ہو رہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، پنجاب وغیرہ کئی مقامات سے ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں 15-2014 سے 24-2023 کے درمیان سرکاری اسکولوں کی تعداد 24.1 فیصد کی کمی آ چکی ہے۔ اتراکھنڈ میں اسی دوران 1552 اسکول بند ہوئے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں 3526، آسام میں تقریباً 3000، گجرات میں تقریباً 2000 اور گوا میں تقریباً 1500 اسکول بند کیے جا چکے ہیں۔ عآپ تعلیم میں انقلاب کے بہت سارے دعوے کرتی رہی ہے، لیکن پنجاب میں اسی کی حکومت نے 450 مڈل اسکولوں کے انضمام کا فیصلہ کیا ہے۔ دلائل وہاں بھی وہی ہیں، جو دوسری ریاستوں میں ہیں۔

یکے بعد دیگرے سبھی ریاستوں میں انضمام کے نام پر جس طرح اسکول بند کیے جا رہے ہیں، اس کے پیچھے کی ایک بڑی وجہ نیتی آیوگ کی ایک سفارش ہے۔ 2016 میں نیتی آیوگ نے نظامِ تعلیم میں اصلاح کے لیے ایک گروپ آف سکریٹریز بنایا تھا۔ اس گروپ نے سفارش کی تھی کہ کم بچوں والے اسکولوں کو قریب کے دوسرے اسکولوں میں ضم کر دیا جانا چاہیے۔ اسے ریشنلائزیشن (حقائق پر مبنی بنانے) کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ریاستوں کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران وزارت برائے انسانی وسائل (اب وزارت تعلیم) نے سبھی کو اس کے لیے حوصلہ بخشا۔ ریاستوں کے ساتھ ہی مرکز کو بھی یہ فائدے کا سودا لگا، کیونکہ تعلیم بھلے ہی ریاست کا موضوع ہے، سرکاری اسکولوں کے خرچ کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت دیتی ہے۔


اسی کے بعد 18-2017 سے 22-2021 کے درمیان ملک بھر میں 70 ہزار سے زیادہ اسکول بند ہوئے۔ اس پالیسی کا اثر ہم ایک دوسری طرح سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق درجہ 1 سے درجہ 5 تک کے بچوں کا ڈراپ آؤٹ شرح جو 21-2020 میں 0.8 فیصد تھا، 22-2021 میں بڑھ کر 1.45 فیصد پر پہنچ گیا۔ اس کے اگلے سال ہی یہ اچھل کر 7.8 فیصد تک جا پہنچا۔

پورے ملک میں اس وقت اسکولوں کے انضمام کے نام پر جو پلاٹ تیار کیا جا رہا ہے، اس میں اس ڈراپ آؤٹ شرح کا بڑھنا طے نظر آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی صد فیصد انرولمنٹ کا ہدف بھی دور ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسکولوں کا انضمام اور ان کا بند ہونا پورے ملک میں ہی چل رہا ہے، لیکن اتر پردیش میں اچانک ہی جس تیزی سے اسے ایک مہم کی طرح انجام دیا جا رہا ہے، وہ پریشان کرنے والا ہے۔ دیہی علاقوں کے غریبوں کے لیے تو یہ بجلی گرنے کی طرح ہے، کیونکہ غریبی سے چھٹکارا پانے کی واحد امید انھیں تعلیم میں ہی دکھائی دیتی ہے۔