استاد ولایت خان، جنہوں نے ’پدم بھوشن‘ اور ’پدم شری‘ اعزازات کو لینے سے انکار کر دیا، جانیں کیوں!

استاد ولایت خان نے 1960 میں پدم شری اور 2000 میں پدم بھوشن لینے سے انکار کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کا فن کسی سرکاری اعزاز سے بلند ہے اور انہیں شاگرد سے بعد میں ملنے والا اعزاز قبول نہیں

<div class="paragraphs"><p>استاد ولایت خان / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

استاد ولایت خان ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے عظیم ستار نواز مانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق امدادخانی گھرانے سے تھا اور ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کا منفرد انداز تھا، جس میں ستار سے وہی کیفیت پیدا کی جاتی جیسے کوئی گلوکار راگ الاپ رہا ہو۔ انہوں نے نہ صرف ستار کی تکنیک کو نئی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ دنیا بھر میں ہندوستانی موسیقی کو متعارف کرایا اور عزت دلائی۔

ولایت خان 28 اگست 1928 کو برطانوی ہندوستان کے مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) کے ضلع میمن سنگھ کے گوری پور قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اُستاد عنایت خان اپنے وقت کے معروف ستار اور سربہار نواز تھے۔ والد کے انتقال کے بعد کم عمری ہی میں ولایت خان نے سخت محنت اور ریاض کے ذریعے موسیقی میں کمال حاصل کیا۔ ان کی لگن اور فن نے انہیں اپنے خاندان کا سب سے روشن نام بنا دیا، یہاں تک کہ امدادخانی گھرانے کو بعد ازاں ’ولایت خانی گھرانہ‘ کہا جانے لگا۔

اُستاد امداد خان، عنایت خان اور عمارت خان کے ساتھ مل کر ’گائکی انگ ستار‘ یا ’ولایت خانی باج‘ کے فروغ کا سہرا انہی کے سر ہے۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1960 کی دہائی میں حکومت ہند نے انہیں ’پدم شری‘ دینے کا اعلان کیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ اس کا ذکر نامور مصنفہ نمیتا دیوی دیال کی کتاب ’دی سکستھ اسٹرنگ آف ولایت خان‘ میں ملتا ہے۔ ولایت خان کا موقف تھا کہ ان کا فن اور خدمات کسی بھی سرکاری اعزاز سے بالاتر ہیں۔ ان کے مطابق اگر کبھی یہ اعزاز لینا ہوا تو وہ اپنی شرائط پر لیں گے، حکومت کے کہنے پر نہیں۔


یہی واقعہ سال 2000 میں دوبارہ پیش آیا جب حکومت نے انہیں ’پدم بھوشن‘ سے نوازنے کا اعلان کیا۔ ولایت خان نے ایک مرتبہ پھر انکار کر دیا۔ اس بار ان کا جواز یہ تھا کہ ان کے شاگرد پنڈت روی شنکر کو پہلے ہی بھارت رتن دیا جا چکا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک استاد کو شاگرد کے بعد اعزاز دینا درست نہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ صرف ان کے فن پر اعتماد ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کی خودداری اور اصول پسندی کا بھی ثبوت ہے۔

اپنے کیریئر کے ایک مرحلے پر استاد ولایت خان نے ہندوستان میں محافلِ موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کلاسیکی موسیقی کو وہ احترام نہیں مل رہا جو اس کا حق ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک موسیقی کو صحیح مقام اور عزت نہیں ملے گی، وہ ہندوستان میں نہیں بجائیں گے۔ کئی برسوں تک انہوں نے اس وعدے پر قائم رہتے ہوئے صرف بیرونِ ملک کنسرٹ پیش کیے۔

استاد ولایت خان کی زندگی اور ان کا فن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقی فنکار کے لیے سب سے بڑی دولت اس کی خودی اور فن سے وابستگی ہے۔ ان کا انکار محض اعزاز سے گریز نہیں تھا، بلکہ ایک پیغام تھا کہ فن کو سرکاری سند کی ضرورت نہیں، بلکہ سچا احترام معاشرے اور سننے والوں کے دلوں سے آتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔