اردو-ہندی: ایک زبان، دو رسم الخط – سیاست کا کھیل اور حقیقت...ناگیندر

اردو اور ہندی کو الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ یہ ہی زبان کے دو رخ ہیں۔ اختلاف زبان کا نہیں، رسم الخط کا ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ہندی کو سنسکرت اور اردو کو فارسی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

ناگیندر

آج کے دور میں جب بیانیے گھڑنے کا سلسلہ زوروں پر ہے، اردو اور ہندی کے حوالے سے کچھ بھی کہہ دیا جائے، اردو پر جتنے بھی الزامات لگا دیے جائیں، سچ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو اور ہندی کو الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ یہ دو زبانیں نہیں بلکہ ایک ہی زبان کے دو رخ ہیں۔ اصل اختلاف زبان کا نہیں بلکہ رسم الخط کا ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ہندی کو سنسکرت کی طرف اور اردو کو فارسی کی طرف دھکیلنے کی ایک ناسمجھی یا سوچی سمجھی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانیں عام لوگوں کے لیے مشکل بنتی جا رہی ہیں۔ ہندی اور اردو تو حقیقی معنوں میں سگی بہنیں ہیں، جن کا گرامر آج بھی ایک ہی ہے۔ تازہ تنازعے کے پس منظر میں ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اپنی اردو تو محبت کی زبان تھی پیارے،

افسوس! سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے

یہ شعر سنتے ہی ذہن میں وہ لمحہ تازہ ہو گیا جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تازہ تقریر سننے کو ملی۔ ابھی میں انہی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ کسی نے مجھے لکھنؤ اور ہندی-اردو ادب کی شان رہے پنڈت آنند نارائن مُلّا کی وہ بات یاد دلائی، جب انہوں نے کہا تھا:

’مُلا‘ بنا دیا ہے اسے بھی محاذِ جنگ،

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی!

اسی لمحے ذہن میں منصور عثمانی کا یہ شعر بھی تازہ ہو گیا:

جہاں جہاں کوئی اردو زبان بولتا ہے،

وہیں وہیں میرا ہندوستان بولتا ہے!


اصل معاملہ کیا تھا؟ وہ لمحہ جب یوگی آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش اسمبلی میں اردو کو 'کٹھ مُلّوں کی زبان' قرار دیا، تب سے میرا دھیان بار بار ان عظیم شخصیات کی طرف جا رہا ہے جنہوں نے اردو میں ایسے کارنامے انجام دیے جو آج بھی ہماری ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ یوگی کا یہ بیان کسی غلط فہمی یا لاعلمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ان کی سیاست اور انتہا پسند نظریے کی گہری جڑوں سے نکلا ایک بیانیہ تھا۔

یوگی نے یوپی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران سماجوادی پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’یہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھائیں گے اور دوسروں کے بچوں کے لیے کہیں گے کہ اردو پڑھاؤ، انہیں مُلّا بناؤ، کٹھ مُلّاپن کی طرف ملک کو لے جانا چاہتے ہیں!‘‘

یہ بیان اس وقت دیا گیا جب سماج وادی پارٹی کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر قبول کرنے کی بات کہی۔ پانڈے نے اعتراض کیا کہ اگر اردو واقعی 'کٹھ مُلّوں' کی زبان ہے تو پھر اردو کے مشہور شاعر فراق گورکھپوری، اردو کے عظیم ناول نگار پریم چند اور اردو کے دیگر ماہرین کو بھی کیا اسی زمرے میں رکھا جائے گا؟

یوگی آدتیہ ناتھ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ خود بھی جس زبان میں بات کرتے ہیں، اس میں ہندی اور اردو دونوں کی جھلک موجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی تقریر میں ’اگر’، ’بات’، ’پائیدان‘، ’حکومت‘ اور ’دنیا‘ جیسے الفاظ شامل نہ ہوتے۔


اردو اور ہندی کی اصل تاریخ کو یاد کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں رہی بلکہ اس کے فروغ میں ہندو دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کا بھی اتنا ہی حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کا پہلا اردو اخبار ’جہاں نما‘ 1822 میں ہری ہردت نے نکالا تھا۔ اسی طرح لکھنؤ سے ’اودھ اخبار‘ بھی ایک ہندو شخصیت، منشی نول کشور نے 1858 میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ راجہ رام موہن رائے نے فارسی زبان میں ’مراۃ الاخبار‘ جاری کیا۔

ہولی، دیوالی اور کرشن بھکتی پر بہترین شاعری کرنے والے نذیر اکبرآبادی کو دیکھیں۔ ان کے لکھے ہوئے ہولی اور دیوالی کے گیت آج بھی مقبول ہیں، ’’جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی۔‘‘ یا دیوالی پر لکھے گئے، ’’ہمیں ادائیں دیوالی کی زور بھاتی ہیں، کہ لاکھوں جھمکیں ہر ایک گھر میں جگمگاتی ہیں۔‘‘ یہ وہ حقیقت ہے جو زبان کو کسی مذہب تک محدود نہیں کرتی۔

جب بھی اردو اور ہندی کی بحث چھڑتی ہے، مجھے ’گل نغمہ‘ جیسا لازوال شعری مجموعہ یاد آتا ہے اور اس کے خالق کا نام ذہن میں آتا ہے، فراق گورکھپوری یعنی یہ شخص صرف ’فراق‘ ہی نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق ’گورکھپور‘ سے بھی تھا۔ وہی گورکھپور، جہاں سے نکلنے والے ایک ’یوگی‘ نے اردو کو ’کٹھ مُلّوں کی زبان‘ قرار دیا۔ غور کریں تو فراق کے نام میں ’فراق‘ بھی ہے اور ’گورکھ‘ بھی۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ’رگھوپتی سہائے‘ تھے، جو نہ جانے کب ’فراق‘ بن گئے۔

یہ حقیقت ہے کہ فراق گورکھپوری ایک ہندو تھے، مگر اردو ادب میں وہ سب سے نمایاں نام بنے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اردو واقعی کسی خاص مذہب سے جڑی ہوتی، تو ایک ہندو شخص اس زبان میں اتنا عظیم کام کیسے کر سکتا تھا؟ اگر اردو واقعی مسلمانوں کی زبان ہوتی، تو کیا ایک ہندو شاعر کو ’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘ مل سکتا تھا اور کیا کسی ہندو یا مسلمان نے اس پر اعتراض کیا؟


یہ سوال آج بھی ذہن میں گونجتا ہے، جیسے چند سال پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے ’آچاریہ فیروز خان‘ کے معاملے میں گونجا تھا۔ انہیں سنسکرت پڑھانے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا، صرف اس لیے کہ ان کا نام ’فیروز خان‘ تھا، حالانکہ وہ سنسکرت کے تمام علمی معیار پر پورے اترتے تھے۔ آج وہ کہاں ہیں، کسی کو معلوم نہیں۔ شاید کسی کو جاننے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔

یہ وہی سوچ ہے جو آج اردو کو صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی سوچ ہے جو مغل سرائے، الہ آباد اور فیض آباد جیسے تاریخی شہروں کے نام بدلنے پر اصرار کرتی ہے۔

اگر اردو بولنے والا مسلمان ہوتا ہے، تو پھر ہندی بولنے والا لازمی ہندو کیوں نہیں ہوتا؟ اگر اردو کسی مخصوص مذہب کی زبان ہے، تو پھر وہ عظیم ہندو شعراء کیوں اردو میں شاعری کرتے رہے؟ نذیر اکبر آبادی جیسے شاعروں نے ہولی اور دیوالی پر اتنی خوبصورت شاعری کیوں کی؟

یہ سوال اس وقت بھی اٹھا تھا جب فیروز خان کو سنسکرت پڑھانے سے روکا گیا اور یہ سوال آج بھی ویسا ہی ہے جب یوگی آدتیہ ناتھ اردو کو کسی خاص طبقے کی زبان قرار دیتے ہیں۔

کیا ہم بھول گئے کہ ہندوستان کے معروف ہارٹ سرجن ڈاکٹر منظور حسن آج بھی کسی بھی محفل میں کھڑے ہو کر سنسکرت کے شلوک نمامی شمیشان نروان روپم کو زبردست انداز میں پڑھتے ہیں؟ کیا ہم بھول گئے کہ سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو سینکڑوں سنسکرت شلوک زبانی یاد تھے؟

اسی طرح جاوید اختر اور گلزار جیسے شعراء بھی اردو اور ہندی کو الگ ماننے کو تیار نہیں۔ گلزار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دونوں زبانیں ایک ہی ہیں، فرق صرف رسم الخط کا ہے۔


اگر ہم ماضی کی طرف جھانکیں تو ہمیں بنارس کی مینا صاحب کی گلیوں سے گزرتے ہوئے استاد بسم اللہ خان دکھائی دیتے ہیں، جو کمر میں لال انگوچھا باندھے بنیا باغ اور دال منڈی کے راستے پانچ گنگا گھاٹ تک جاتے ہیں، گنگا میں اشنان کرتے ہیں اور سورج کو سلام کرتے ہیں۔ پھر وہ بالاجی مندر جاتے ہیں اور اپنی شہنائی کا ریاض کرتے ہیں۔ ان کے ارد گرد بیٹھے لوگ، جو ابھی ابھی گنگا اشنان کر کے آئے ہیں، انہی کی شہنائی کی دھن میں کھو جاتے ہیں۔

یہ وہی بنارس ہے جہاں سنکٹ موچن مندر کے سالانہ تہوار میں استاد بسم اللہ خان کی شہنائی بھی گونجتی تھی، امجد علی خان کا سرود بھی، ذاکر حسین کا طبلہ بھی اور نظامی برادران کی قوالی بھی۔ تو کیا اب ہمیں موسیقی سننے سے پہلے ساز بجانے والے کا مذہب بھی جاننا ہوگا؟

اردو اور ہندی کو بانٹنے کی کوشش کوئی نئی نہیں، مگر یہ حقیقت نہیں بدل سکتی کہ دونوں ایک ہی زبان ہیں۔ جو لوگ ان زبانوں کو مذہب کے خانے میں بانٹ رہے ہیں، وہ دراصل ہندوستان کی مشترکہ ثقافت پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے سوچنے کا کہ ہم اپنی وراثت کو بچائیں گے یا اسے سیاست کی نذر کر دیں گے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔