گنہگاروں کے لیے ’جنت‘ اور بے گناہوں کے لیے ’عذاب‘ بنی یو پی جیل

2010 میں کچھ ماہ جیل میں گزار چکے صحافی مہرالدین خان نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ’’جیل کے اندر ہی جرائم پیشے امیر قیدیوں کو ڈرا دھمکا کر وصولی کرتے ہیں، اور اس کی خبر جیل انتظامیہ کو رہتی ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

سبکدوش آئی پی ایس افسر اور ملیانا واقعہ کے وقت غازی آباد کے ایس پی رہ چکے وبھوتی نارائن رائے نے آج ایک اخبار میں جیل میں پھل پھول رہے جرائم پر ایک مضمون لکھا۔ وی این رائے اپنے ایک دوست کے تجربے کی بنیاد پر اس میں ایک انکشاف کرتے ہیں کہ مغربی اتر پردیش کے ایک ضلع کی جیل کی ماہانہ کمائی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ وی این رائے نے اس جیل کا نام نہیں لکھا ہے لیکن ماہرین مانتے ہیں کہ وہ ڈاسنا جیل کی بات کر رہے ہیں۔

غازی آباد ضلع کے مسوری اور ڈاسنا گاؤں کے درمیان 21 فیٹ اونچی اور ہائی پروفائل اس جیل سے متعلق اکثر خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ 1704 قیدیوں کی صلاحیت والی اس جیل میں اب 4200 سے زیادہ قیدی ہیں۔ اتر پردیش کے سب سے رسوخ دار قیدی اسی جیل میں پائے جاتے ہیں۔ شہرت حاصل کر چکی تلوار فیملی، نٹھاری واقعہ کے قصوروار پنڈھیر اور بڑے سیاسی لیڈر اور اونچی پہنچ والے افسر اسی اصلاح گھر میں لائے جاتے ہیں۔ جیل میں خرچ ہونے والا یہ پیسہ مبینہ طور پر انہی بڑے لوگوں سے سہولت کے نام پر وصول کیا جاتا ہے۔

ڈاسنا جیل ذرائع کے مطابق یہاں ایک شخص کے لیے گھر کا کھانا، منرل واٹر، اچھا بستر اور خادم کے ساتھ ساتھ ایل سی ڈی جیسی سہولیات کے لیے ایک لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے اسے سونے کا انڈا دینے والی جیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس جیل کا شمار ہائی سیکورٹی والی جیلوں میں ہوتا ہے اور یو پی کے اے ڈی جی (جیل) چندر پرکاش اس کی سیکورٹی کو مضبوط بتاتے ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان کویتا چودھری قتل کے ایک ملزم رویندر پردھان (30 مئی 2008)، پلکھوا بم دھماکہ کے مبینہ ملزم شکیل (19 جون 2009) اور نزارت گھوٹالہ کے منصوبہ ساز آشوتوش استھانا (17 اکتوبر 2009) کا یہاں مشتبہ حالت میں قتل ہو چکا ہے۔ اس طرح کے قتل سے اتر پردیش کی جیلوں میں مجرمانہ نظام کے اثرانداز ہونے کی بات سامنے آنے لگی ہے۔ اس بار یہ سوال باغپت جیل کے اندر ہوئے گینگسٹر منا بجرنگی کے قتل کے بعد بھی کھڑا ہو رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یو پی کی جیل مجرمانہ سرگرمیوں کو چلانے کا اڈہ بن چکی ہے اور یہاں بے حد شاطر جرائم پیشے بغیر روک ٹوک اپنا نظام مضبوط کر رہے ہیں۔ اس میں مقامی جیل انتظامیہ بھی ملی ہوئی ہے۔

گنہگاروں کے لیے ’جنت‘ اور بے گناہوں کے لیے ’عذاب‘ بنی یو پی جیل
ڈاسنا میں واقع غازی آباد ضلع جیل

دادری کے سینئر صحافی مہرالدین خان 2010 میں مظفر نگر جیل میں ایک گھریلو معاملے میں کچھ ماہ گزار کر آئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے جیل کے تجربات پر ایک کتاب بھی لکھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’جیل بے گناہوں کے لیے جہنم اور گنہگاروں کے لیے جنت بن چکی ہے۔ مقامی جیل انتظامیہ بڑے پیشہ ور جرائم پیشوں سے ملا ہوا ہوتا ہے اور جیل کے اندر ہی جرائم پیشے امیر قیدیوں کو ڈرا دھمکا کر وصولی کرتے ہیں۔ بڑے جرائم پیشوں کا جیل میں بھی راج چلتا ہے۔ ان کا کھانا باہر سے آتا ہے، ان سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور وہ بہ آسانی موبائل کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے قیدیوں کو خوف دکھا کر سہولت دینے کے لیے اچھی رقم وصول کی جاتی ہے۔ جیل میں پیسے سے تقریباً ہر سہولت ملتی ہے۔ یو پی کی جیل انتظامیہ پوری طرح سے بدعنوان ہو چکی ہے۔

گنہگاروں کے لیے ’جنت‘ اور بے گناہوں کے لیے ’عذاب‘ بنی یو پی جیل
مظفرنگر جیل کے اندر سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اس سیلفی (بائیں) نے سنسنی پھیلا دی تھی

اتر پردیش کی کئی جیلوں سے مجرمانہ سرگرمیاں چلائے جانے کی خبریں اڑتی رہتی ہیں جن میں باغپت اور مظفر نگر جیل سب سے زیادہ بدنام ہے۔ چونکہ مظفر نگر ہمیشہ موضوعِ بحث رہتا ہے اس لیے گزشتہ کچھ سالوں میں وہاں تھوڑا دھیان دیا گیا ہے۔ اب باغپت جیل گزشتہ کچھ مدت سے خاص ذات کے جرائم پیشوں کی پسندیدہ پناہ گاہ بن گئی ہے اور اب یہاں زیادہ تر بدنام افسران کو ہی زیادہ تر تعینات کیا جاتا ہے۔ مثلاً باغپت جیل سے معطل کیے گئے جیلر اودے پرتاپ سنگھ اپنے متنازعہ رویے کی وجہ سے تیسری بار سسپنڈ ہوئے ہیں۔ باغپت کے جیل ذرائع کے مطابق گزشتہ کچھ سالوں سے سنیل راٹھی کی اس جیل پر حکومت چل رہی تھی۔ اس سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا تھا۔ اس کا کھانا روزانہ گھر سے آتا تھا اور اس کی بیرک ایک ہوٹل کے کمرے جیسی تھی۔ اب وہاں سے قیمتی گدہ اور ایل سی ڈی ہٹا لیا گیا ہے۔ منا بجرگی قتل کے بعد سبحان پور جنگل کے درمیان بالکل سنسان علاقے میں موجودہ اس جیل میں سنیل راٹھی کا خوف مزید بڑھ جائے گا۔

اتر پردیش کے وزیر جیل جے کمار جیکی نے گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ زور آور اشخاص خود کو کسی جگہ محفوظ نہ سمجھیں۔ اب خبر ہے کہ مختار انصاری نے لکھنو جیل میں بھوک ہڑتال شروع کر دیا ہے۔ زور آور لیڈر اور ممبر اسمبلی مختار انصاری کا کہنا ہے کہ جب تک جیل میں ان کی سیکورٹی مضبوط نہیں کی جائے گی وہ کچھ نہیں کھائیں گے۔

گنہگاروں کے لیے ’جنت‘ اور بے گناہوں کے لیے ’عذاب‘ بنی یو پی جیل
ضلع جیل غازی آباد

دراصل ریاست کے زیادہ تر جرائم پیشہ جیلوں سے آج بھی اپنی بادشاہت چلا رہے ہیں اور ان کی سیاسی حلقوں میں گرفت بھی مضبوط ہے۔ ان سب کے درمیان وزارت جیل کی طاقت میں بہت دَم ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012 میں اکھلیش یادو حکومت آنے کے بعد سابق میں 26 مہینے جیل میں رہنے والے راجہ بھیا کو نئی حکومت میں وزیر جیل بنایا گیا۔ سیاسی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ محکمہ ان کی خود کی خواہش تھی۔

جیل میں دخل ہمیشہ سے طاقتوروں کا شغل رہا ہے اور باغپت جیسی کمزور منظرنامے والی جیل ان کے لیے آرام گاہ بن جاتی ہے۔ اتر پردیش کا جیل انتظامیہ کس طرح کام کرتا ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ صوبے کی 47 جیل میں اب بھی سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے ہوئے ہیں۔ جیل سے انٹرنیٹ کال ہو رہا ہے جس کو پولس ٹریک نہیں کر پاتی اور 4جی نیٹورک کو جیمر نہیں پکڑ پاتا۔ یہی اسباب ہیں کہ جیل کے اندر سے فیس بک پر سیلفی اَپ لوڈ ہو جاتی ہیں لیکن اندر چل رہی سرگرمیاں باہر نہیں آ پاتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سہولیات کچھ ’خاص‘ لوگوں کے لیے ہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Jul 2018, 6:30 AM