ماب لنچنگ کے واقعات میں انصاف سے محرومی...سہیل انجم

یوپی میں محمد اخلاق لنچنگ کیس واپس لینے کی کارروائی نے متاثرین کے زخم تازہ کر دیے۔ گواہوں کے عدم تحفظ، سیاسی مداخلت اور انصاف سے محرومی پر سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ دیگر کیسز پر بھی خدشات بڑھ گئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ماب لنچنگ کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

سہیل انجم

آجکل ایک ایسی خبر میڈیا میں گردش کر رہی ہے جس کو پڑھ کر بے شمار زخموں کے بند کھل گئے ہیں۔ وہ زخم جو ماب لنچنگ سے ملے اور جن کے متاثرین آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ خبر یہ ہے کہ اترپردیش میں دادری کے بساہڑہ گاوں کے محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والوں کے خلاف قائم مقدمات واپس لینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اترپردیش کی حکومت نے اس سلسلے میں عدالت میں ایک درخواست داخل کی ہے۔ ریاست کے اسپیشل سکریٹری مکیش کمار نے گوتم بدھ نگر کے ڈی ایم کو خط لکھ کر مقدمہ واپس لینے کی منظوری دی ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ایڈووکیٹ بھاگ سنگھ بھاٹی نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔اس کے ساتھ ہی مقدمہ واپس لینے کا راستہ رسمی طور پر کھل گیا ہے۔

ریاستی حکومت کی دلیل ہے کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے اور پہلے ملزموں کی تعداد کچھ اور تھی بعد میں کچھ اور کر دی گئی اور جائے واردات سے کوئی دھار دار ہتھیار نہیں ملا۔ گواہوں کا کہنا ہے کہ ان کو سیکورٹی فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے وہ عدالت میں حاضر ہو کر اپنا بیان آزادی کے ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خطرات کی وجہ سے وہ کئی بار مقررہ تاریخوں پر عدالت میں نہیں پہنچ سکے۔ جبکہ ملزموں کی تعداد کے بارے میں اخلاق کے بیٹے دانش کا کہنا ہے کہ پہلے ان لوگوں کو، جن کے ناموں کا علم ہوا تھا ملزم بنایا گیا مگر جب چشم دید افراد سے کچھ اور لوگوں کے نام معلوم ہوئے تو ان کے نام بھی جوڑ دیے گئے۔ ملزموں کی تعداد میں اضافہ عام بات ہے۔ پولیس خود متعدد معاملات میں ملزموں کے ناموں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان لولی لنگڑی دلیلوں کی بنیاد پر کیس ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ دس سال قبل 28 ستمبر 2015 کی شب میں بساہڑہ گاوں میں لاوڈ اسپیکر سے اعلان ہوا کہ محمد اخلاق نے گو کشی کی ہے اور اس کا گوشت اس نے اپنے فریج میں رکھا ہوا ہے۔ اس اعلان پر ایک مشتعل بھیڑ نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس حملے میں اخلاق کا بیٹا دانش بری طرح زخمی ہوا جس کا کافی دنوں تک اسپتال میں علاج چلتا رہا۔ اخلاق کی بیوہ نے تھانے میں دس افراد کے خلاف نامزد اور چار پانچ نامعلوم افراد کے خلاف شکایت درج کرائی۔ اخلاق کے گھر سے برآمد گوشت کو متھرا کے لیب میں جانچ کے لیے بھیجا گیا۔ جانچ رپورٹ میں پایا گیا کہ وہ وہ گائے کا گوشت نہیں تھا۔ اس کے بعد اخلاق کے اہل خانہ دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔ ان کا الزام ہے کہ وہ خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو سیکورٹی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ عدالت میں حاضری دینے سے قاصر رہتے ہیں۔


قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ مقدمہ واپس لینے کا یوپی حکومت کا قدم خلاف قانون ہے اور یہ بالکل سیاسی معاملہ ہے۔ دراصل اسے سیاسی معاملہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ اس واردات کا کلیدی ملزم ایک مقامی بی جے پی لیڈر کا بیٹا ہے۔ واردات کے بعد اسے اور دوسرے ملزموں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن دو سال کے بعد ان لوگوں کو ضمانت مل گئی۔ یہ قدم بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ماب لنچنگ کے دیگر معاملات میں دیکھا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں اور مبصرین کا الزام ہے کہ موجودہ مرکزی و ریاستی حکومت برسراقتدار جماعت سے وابستہ افراد کے ساتھ رعایت سے کام لیتی ہے جبکہ اپوزیشن سے وابستہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے۔ اس حوالے سے وہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی بھی مثال پیش کرتے ہیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے خلاف قائم مقدمات کو واپس کروا دیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ محمد اخلاق کے معاملے کے ایک ملزم کی جب جیل میں چکن گونیا سے موت ہو گئی تو سرکاری طور پر اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور اس کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹا گیا۔

محمد اخلاق کا معاملہ تنہا ایسا معاملہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں شائع خبر کے بعد حافظ جنید کی یاد آگئی۔ پہلو خان کی یاد آگئی۔ علیم الدین کی یاد آگئی۔ تبریز انصاری، محسن شیخ، اکبر خان وغیرہ کی یاد آگئی۔ ایسے جانے کتنے لوگ ہیں جن کو مشتعل بھیڑ نے گو کشی کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ ایسے لوگوں نے گو رکشک دل نامی تنظیمیں بنائیں اور بے قصوروں کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ جو لوگ جانوروں کی تجارت کرتے ہیں اور سرکاری اجازت نامہ لے کر اپنی گاڑیوں سے مویشیوں کو لاتے لے جاتے ہیں ان کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور یا تو انھیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے یا پھر ان سے موٹی رقمیں وصول کی جاتی ہیں۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے مرکزی اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اور ماب لنچنگ کے واقعات شروع ہوئے تو ایک تقریب میں انھوں نے ایسے لوگوں کو گو بھکت ماننے سے انکار کیا اور انھیں سماج دشمن عناصر قرار دیا۔ لیکن ان کی باتوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور ایسے واقعات کم نہیں ہوئے۔ اس وقت بظاہر اس قسم کے واقعات کم ہو رہے ہیں لیکن اکا دکا اب بھی ہو رہے ہیں۔

ان بے شمار کیسیز میں سے چند میں ہی ملزموں کو سزا سنائی گئی ہے ورنہ بیشتر معاملات میں متاثرین اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان واقعات کی شدید مذمت کرتی ہیں اور متاثرین کے ساتھ انصاف کیے جانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی ایسے واقعات پر سخت موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے ہجوم کے حملوں اور قتل کی ان وارداتوں کو ’ماب رول‘ یا ہجوم اور بھیڑ کی حکومت قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ اس نے ایک بار مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے اقدامات کریں۔ تاہم ایسا کوئی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے اقلیتوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ چھوٹے موٹے فسادات بھی ہوتے ہیں جن میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دہلی میں ایک بڑا فساد ہوا جس میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

محمد اخلاق کا ایک بیٹا فضائیہ میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اخلاق کی ہلاکت پر ایئر فورس نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ فضائیہ میں برسرکار ایک عہدے دار کے اہل خانہ کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہاں تک کہ ایئر فورس نے ان لوگوں کے لیے الگ اور محفوظ رہائش گاہ کا انتظام کیا۔ اس نے اس خاندان کو سپورٹ بھی کیا۔ اس کے باوجود کوئی بھی ادارہ ان متاثرین کی قانونی مدد کو آگے نہیں آیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اخلاق کے کیس کو خاموشی سے بند کر دیا گیا تو اس قسم کے دیگر واقعات و معاملات کا بھی یہی حشر ہوگا اور متاثرین انصاف کے لیے بھیک مانگتے رہ جائیں گے۔


اس موقع پر گجرات حکومت کے اس فیصلے کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں بلقیس بانوں ریپ کیس میں جیل میں سزائے موت کاٹ رہے ملزموں کو عام معافی دے کر جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ وہ تو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں سخت ایکشن لیا اور مجرموں کو دوبارہ جیل بھیجا۔ وہ واقعہ بھی نہیں بھولتا جب علیم الدین کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دینے کے کیس میں عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے والے آٹھ ملزموں سے مرکزی وزیر جینت سنہا نے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ان کو ہار پہنا کر ان کا خیرمقدم بھی کیا تھا۔ ان کے اس قدم کی چاروں طرف مذمت کی گئی تھی۔

بہرحال محمد اخلاق کی لنچنگ کے کیس کو بند کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اگر چہ اس قدم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن ہوگا وہی جو حکومت چاہے گی۔ یعنی یہ کیس بند کر دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے جس کا قوی امکان ہے تو پھر جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے دوسری ریاستوں میں پیش آنے والے اس قسم کے واقعات میں بھی یہی روش اختیار کی جائے گی اور ممکن ہے کہ دوسرے کیسیز بھی بند کر دیے جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات آئین و قانون اور عدالت و انصاف کے منہ پر زوردار طمانچہ ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔