گمنام مجاہدۂ آزادی: بیگم خورشید خواجہ کی بہادری اور خدمت کا سفر
بیگم خورشید خواجہ، آل انڈیا نیشنل کانگریس کی رہنما تھیں، جو شوہر کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ وہ کھادی و تعلیم کی علمبردار تھیں، جن کی مہاتما گاندھی بھی تعریف کرتے تھے

بیگم خورشید خواجہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی ایک ممتاز اور گمنام رہنما تھیں، جنہوں نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی رکنیت کے ذریعے برصغیر کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر، عظیم انقلابی بیرسٹر عبدالمجید خواجہ کے ساتھ میدان عمل میں شریک رہیں بلکہ خواتین کے لیے تحریک آزادی میں فعال کردار کا معیار بھی قائم کیا۔
مہاتما گاندھی نے انہیں تحسین کے ساتھ یاد کیا اور لکھا، ’’موجودہ حالات میں ہر اس ہندوستانی کے لیے جو عزت نفس رکھتا ہے جیل ہی ایک مناسب جگہ ہو سکتی ہے۔ بیگم خواجہ نے مجھے لکھا ہے کہ انہیں اپنے شوہر کے اب تک آزاد رہنے کا افسوس ہے جب کہ میدان عمل کے ان کے ساتھی جیل پہنچ چکے ہیں۔ جذبہ صادق اسی کا نام ہے۔‘‘
بیگم خورشید خواجہ 1896میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حیدرآباد عدالت عالیہ میں چیف جسٹس تھے اور دادا سمیع اللہ، سر سید احمد خاں کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ خورشید کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور حیدرآباد میں قیام کے دوران ان کا تعلق سروجنی نائیڈو سے ہوا، جس کے انقلابی خیالات نے ان پر گہرا اثر چھوڑا اور قومی تحریک میں حصہ لینے کا عزم پیدا کیا۔
1920 میں انہوں نے باضابطہ طور پر انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور اپنی تمام عمر اس کے لیے سرگرم رہیں۔ شادی کے بعد انہوں نے پردہ ترک کیا اور شوہر کے ساتھ قدم بہ قدم تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ ان کے شوہر اور بیگم خورشید خواجہ دونوں میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ تحریک عدم تعاون کے دوران 1916 میں کانگریس کے بیشتر ارکان گرفتار ہوئے لیکن ان کے شوہر محفوظ رہے، جس پر دونوں کو صدمہ ہوا اور بیگم خورشید نے مہاتما گاندھی کو اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے مکتوب بھیجا۔
بیگم خورشید خواجہ نے 1921 میں حیدرآباد میں کانگریس کی سبجیکٹ کمیٹی میں یوپی کی نمائندگی کی اور بیگم نشاط النسا، بیگم امجدی، کملا نہرو اور سروپ رانی کے ساتھ خواتین کی آواز کو مضبوط بنایا۔ مہاتما گاندھی نے اردو لکھنا سیکھنے کے بعد پہلا خط انہیں ہی لکھا، جو ان کے اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کھادی کی مہم چلائی، خود بھی کھادی پہنیں، علی گڑھ میں ایک کھادی اسٹور قائم کیا اور 1921 میں ’ہند‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ جاری کیا۔ جب بیرسٹر عبدالمجید خواجہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شیخ الجامعہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تو برطانوی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ بیگم خورشید نے مہاتما گاندھی کو خط لکھا کہ وہ اپنے شوہر کے فرائض ان کی غیر موجودگی میں انجام دینے کی پوری کوشش کریں گی۔
تقسیم ہند کے بعد وہ فعال سیاست سے دور ہو گئیں اور تعلیمی و خدمتی سرگرمیوں کو اپنا محور بنایا۔ 1930 میں الٰہ آباد میں انہوں نے حمیدیہ گرلز اسکول قائم کیا، جو بعد میں ایک ڈگری کالج میں تبدیل ہو گیا۔ اپنی وفات سے قبل جولائی 1981 میں، بیگم خورشید خواجہ نے خواتین کی تعلیم اور قومی خدمت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
مہاتما گاندھی نے ان کے بارے میں لکھا، ’’جب ایک پاکباز عورت میں بہادری اور مادرانہ شفقت کی آمیزش ہو جائے تو وہ ایک طاقت بن جاتی ہے جس کی برابری کوئی مرد بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
بیگم خورشید خواجہ کی زندگی ہمارے لیے جذبہ حب الوطنی، قربانی اور خدمت کا روشن نمونہ ہے، جو آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔