حماس-اسرائیل بحران: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد پاس ہونے کی امید، لیکن...

اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل گزشتہ تین ہفتوں میں 4 مرتبہ میٹنگ کر چکی ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں ایسا کوئی اتفاق قائم نہیں ہو سکا ہے جس سے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری روکی جا سکے۔

<div class="paragraphs"><p>حماس-اسرائیل جنگ کو لے کر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اجلاس، Getty Images</p></div>

حماس-اسرائیل جنگ کو لے کر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اجلاس، Getty Images

user

شالنی سہائے

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں آج (جمعرات) غزہ کے حالات پر تبادلہ خیال شروع ہوا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جمعہ کو ایک قرارداد پاس کیا جائے گا جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی اپیل کی جائے گی۔ لیکن اس قرارداد میں حماس کے ذریعہ 7 اکتوبر کو اسرائیل میں کیے گئے حملے کی مذمت نہیں کی جائے گی۔ اس قرارداد کو اردن نے پیش کیا ہے اور مانا جا رہا ہے کہ اسے اتفاق رائے کے ساتھ پاس کر دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ صرف ایک علامتی قدم ہوگا جسے ایک اپیل سے زیادہ کچھ نہیں تصور کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ اردن 1994 سے ہی اسرائیل کا ایک مقامی دوست رہا ہے، لیکن اس نے اسرائیلی فوج کے ذریعہ حماس کو نشانہ بنانے کے نام پر غزہ میں کی گئی بمباری کی تلخ تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ عرب دنیا اس بات کو لے کر اقوام متحدہ سے بے حد خفا ہے کہ اس نے ابھی تک علاقے میں جنگ بندی کی اپیل تک نہیں کی ہے، اور مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر دوہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔


غور طلب ہے کہ 15 رکنی اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل اسرائیل-حماس جنگ شروع ہونے کے بعد تین ہفتوں میں چار میٹنگیں کر چکی ہے۔ کونسل کے 15 ممالک میں 5 اراکین کے پاس ویٹو کا حق ہے۔ حماس-اسرائیل ایشو پر سیکورٹی کونسل ابھی تک ایسا کوئی عام اتفاق بنانے میں ناکام رہی ہے جس سے کہ اسرائیل کے ذریعہ غزہ پر بمباری روکنے سے متعلق اپیل کی گئی ہو۔

اس سلسلے میں امریکہ کے ذریعہ لائے گئے اس قرارداد کو چین اور روس نے ویٹو کر روک دیا جس میں اخلاقی بنیاد پر اسرائیلی بمباری پر جنگ بندی کی بات تھی۔ اسی طرح روس کے ذریعہ لائے گئے قرارداد کو امریکہ نے روک دیا جس میں بلاشرط جنگ بندی کی اپیل تھی۔ یہاں توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل کے ذریعہ پاس قرارداد پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔


سیکورٹی کونسل سے الگ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گلاڈ ایردن نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ جنرل سکریٹری اینٹونیو گوٹیرس اس بات کے لیے معافی مانگ کر استعفیٰ دیں جس میں انھوں نے حماس کے ذریعہ اسرائیل پر حملے کی کچھ مختلف انداز میں مذمت کی تھی۔ جنرل سکریٹری نے اس بارے میں ایک بیان جاری کر الزام کو غلط بتایا اور کہا کہ ان کے بیان کو نامناسب طریقے سے پڑھا گیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہین نے بھی گوٹیرس پر دہشت گردی کو درست ٹھہرانے اور یو این چیف کے ساتھ ہونے والی میٹنگ رد کرنے کا الزام لگایا ہے۔

گوٹیرس نے دراصل اپنے بیان میں کہا تھا کہ حماس کے ذریعہ کیے گئے حملے کو کسی طرح درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن یہ ماننا صحیح ہوگا کہ حماس نے یوں ہی حملہ نہیں کر دیا۔ کیونکہ فلسطین پر ہو رہے مظالم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گوٹیرس نے مزید کہا تھا کہ دنیا اس بات سے آنکھیں نہیں پھیر سکتی کہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کی بنیاد کے لیے دو ملکی حل ہی حقیقی حل ہے۔ انھوں نے اس بات کو نشان زد کرتے ہوئے کہ فلسطینی گزشتہ 56 سال سے دم گھونٹو ماحول میں جی رہے ہیں، کہا تھا کہ ’’اسرائیل کو اپنی جائز سیکورٹی کا دھیان رکھنا چاہیے اور فلسطین کو بھی اپنی جائز سیکورتی کا حق ہے، کیونکہ آزاد ممالک کے لیے اقوام متحدہ کے اصولوں، بین الاقوامی قوانین اور قبل میں کیے گئے سمجھوتوں کے موافق حالات ہے۔‘‘


گزشتہ تقریباً تین ہفتوں سے غزہ میں جاری بمباری کے سبب غزہ ملبہ کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ کثیر تعداد میں مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ اسپتال، لاتعداد اسکول اور دیگر عمارتیں زمیں دوز ہو گئی ہیں اور خواتین و بچوں سمیت 7000 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ان حالات کو لے کر اقوام متحدہ کی ابھی تک کی ناکامی سے لوگوں میں مایوسی ہے۔ چونکہ امریکہ سمیت پورا مغرب ابھی تک اسرائیل کا ساتھ دیتا آ رہا ہے، اور کہہ رہا ہے کہ اسے حماس کو ختم کر اپنی حفاظت کرنے کا حق ہے، ایسے میں امن کی امید فی الحال دھندلی ہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔