ٹرمپ کی امریکہ سے تال میل کی جدوجہد اور ہندوستان کو درپیش سفارتی مشکلات...آشیش رے
ٹرمپ کی سفارت کاری، سخت تجارتی پالیسیوں اور ویزا پابندیوں نے ہند-امریکی تعلقات کو مشکل موڑ پر لا دیا، جبکہ اندرون امریکہ مہنگائی، سیاسی دباؤ اور ایپسٹین فائلز خود ٹرمپ کے لیے بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں

معروف امریکی ماہرِ معاشیات جیفری سیکس ان متعدد امریکی دانش وروں میں شامل ہیں جو ڈونالد ٹرمپ کے سخت ناقد رہے ہیں۔ کولکاتا میں ایک پروگرام کے دوران انہوں نے کہا، “ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کی نمائندگی نہیں کرتے۔ نہ وہ امریکہ کے لیے اچھے ہیں اور نہ ہی ہندوستان کے لیے۔‘‘ اسی گفتگو میں انہوں نے مزید کہا، ’’مجھے معلوم ہے کہ ٹرمپ کے نریندرد مودی کے ساتھ قریبی تعلقات رہے، کئی بار ملاقاتیں ہوئیں اور ہندوستان میں یہ تاثر قائم ہو گیا کہ دونوں کے رشتے غیر معمولی حد تک مضبوط ہیں… لیکن سچ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد سے گریز ہی بہتر ہے؛ موجودہ حالات میں ایسا اتحاد ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔‘‘
کرسمس سے قبل شام کو وزیر صنعت و تجارت پیوش گوئل کے حوالے سے کہا گیا کہ ہندوستان اور امریکہ ایک ابتدائی تجارتی فریم ورک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یہ بیان محتاط اور مبہم تھا، جس میں کوئی ٹھوس بات شامل نہیں تھی اور اس سے یہ حقیقت بھی تبدیل نہیں ہوتی کہ ہندوستان کو اب بھی اپنی برآمدات پر 50 فیصد تک کے جوابی ٹیرف کا سامنا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ہندوستان کے تئیں جو سرد مہری اختیار کی ہے اور جس انداز میں اسے امریکہ کی نئی عالمی حکمتِ عملی میں کنارے کر دیا گیا ہے، وہ خاصا حیران کن ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب کچھ ہی عرصہ قبل قریبی دوست کے طور پر گرمجوشی سے گلے ملنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے کا ماحول تھا۔ وزیر اعظم مودی کی سفارت کاری بڑی حد تک شخصی تعلقات پر مبنی رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اُن کے ’دوست‘ نے رخ موڑ لیا تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے 1990 کی دہائی سے ہندوستان نے جو سفارتی سرمایہ جمع کیا تھا، وہ اچانک تحلیل ہو گیا ہو۔
اس بدلتی صورتحال کا براہِ راست اثر بیرونِ ملک جانے والے ہندوستانیوں پر بھی پڑا ہے۔ امریکہ میں کیریئر اور بہتر زندگی کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایچ-1بی ویزا سے متعلق سختیاں شدید تشویش کا باعث بن چکی ہیں۔ دہلی میں امریکی سفارت خانہ ویزا کی تجدید میں غیر معمولی تاخیر کر رہا ہے۔ ایچ-1بی اور ایچ-4 ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا پروفائلز کی سخت جانچ کی جا رہی ہے، اور بڑی تعداد میں ویزا اپائنٹمنٹس کو ری شیڈول یا منسوخ کیا جا رہا ہے۔
سان فرانسسکو میں کام کرنے والے کئی ٹیک ملازمین اس وجہ سے اپنی ملازمتیں کھو رہے ہیں کہ وہ ایک سال تک امریکہ واپس نہیں جا پا رہے۔ ایسے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں جنہوں نے طویل قیام کی نیت سے امریکہ میں مکانات خرید رکھے تھے؛ اب ان کی جائیدادیں بھی خطرے میں دکھائی دے رہی ہیں۔ میڈیا میں ایک شخص کے حوالے سے بتایا گیا، ’’جنوری 2026 میں میری شادی طے ہے، اسی کے لیے میں ہندوستان آیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ 2027 تک یہیں پھنس کر رہ جاؤں گا۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ درخواست گزاروں کو طویل پروسیسنگ وقت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا سرگرمیوں کی جانچ کے بارے میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ سب ایچ-1بی پروگرام کے مبینہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سیاحتی ویزا درخواستیں بھی اسی سخت نگرانی کی زد میں ہیں۔ اگر کسی مرحلے پر یہ سامنے آ جائے کہ درخواست گزار نے آن لائن ٹرمپ انتظامیہ پر تنقید کی ہے، تو اسے روک دیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ امریکی ہوائی اڈے پر بھی۔
امریکہ کے اندر بڑھتی مشکلات
اپنی دوسری مدتِ صدارت کے ابتدائی مہینوں ہی میں ٹرمپ نے جس جارحانہ انداز کا مظاہرہ کیا، اس سے ٹرمپ ازم کو اندرونی سطح پر شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ٹیریف کو سیاسی ہتھیار بنانے کے نتیجے میں امریکہ میں مہنگائی تیزی سے بڑھی ہے۔ عام امریکی کو خوراک اور صحت پر پہلے سے کہیں زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) کے پُرجوش حامی بھی مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
اگرچہ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں ری پبلکنز کی اکثریت ہے، اس کے باوجود ٹرمپ کو قانون سازی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ کئی ری پبلکن اراکینِ پارلیمان کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی کھلی حمایت آئندہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ان کے اپنے سیاسی مستقبل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسی کمزور حمایت کے باعث ٹرمپ انتظامی احکامات کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں، حالانکہ کانگریس کی منظوری کے بغیر ان احکامات کی حیثیت محدود ہوتی ہے۔
ٹرمپ اپنی ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی اور سخت خارجہ مؤقف کے ذریعے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خود کو عالمی امن کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور نوبیل امن انعام کے لیے مہم چلاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اسرائیل کی مسلسل حمایت، عراق پر بمباری اور وینزویلا میں اقتدار کی تبدیلی کی کوششیں جاری ہیں۔
روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی ان کا مؤقف جنگ کے خاتمے سے زیادہ تجارتی مفادات کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ ان کے مذاکرات کار پیشہ ور سفارت کار نہیں بلکہ کاروباری شخصیات ہیں، جن میں دوست اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔ مغربی دنیا کی تقسیم نے روس کے لیے حالات کو مزید سازگار بنا دیا ہے، اور اس کا فائدہ بالآخر ولادیمیر پوتن کو پہنچ رہا ہے۔
ایپسٹین فائلیں: سب سے بڑا خطرہ
ٹرمپ کے لیے سب سے سنگین خطرہ سزا یافتہ پیڈوفائل جیفری ایپسٹین سے متعلق وہ فائلیں ہیں جو کانگریس کے ایک قانون کے تحت ڈی کلاسیفائی کی گئی ہیں۔ امریکی محکمۂ انصاف نے متاثرین کے تحفظ کے نام پر ان دستاویزات کا ایک تراش خراش شدہ حصہ جاری کیا ہے، مگر اس کے ساتھ ضروری وضاحتی نوٹس شامل نہیں کیے گئے۔ اس پر کانگریس کے اراکین عدالت سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ نے ایپسٹین سے فاصلہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں کے درمیان تعلقات رہے ہیں۔ 1993 سے 1996 کے دوران ٹرمپ کا کم از کم آٹھ بار ایپسٹین کے نجی طیارے میں سفر کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مزید یہ کہ تفتیش کے دوران ٹرمپ کا نام سامنے آ چکا تھا، اور سی این این کے مطابق حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی دستاویزات میں ایپسٹین کے دستخط شدہ ایک متنازع خط کا بھی ذکر ہے، جسے محکمۂ انصاف نے جعلی قرار دیا ہے۔