کیوں غزہ امن منصوبہ اپنے ساتھ کئی سوال لے کر آیا ہے؟

ٹرمپ کا بیس نکاتی غزہ امن منصوبہ بظاہر ریلیف فراہم کرتا ہے مگر اس میں حماس کو شامل نہ کر کے فلسطینی عوام کی اصل نمائندگی کو نظرانداز کیا گیا ہے، جس سے اس کی کامیابی پر سوال اٹھتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

سید خرم رضا

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی غزہ امن منصوبہ اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ بظاہر اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار دو سب سے بڑے فریقین یعنی اسرائیل اور حماس پر ہے، جو دونوں ہی بظاہر ایک دوسرے کے روایتی دشمن ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخری لمحات میں اس منصوبے کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ کسی بھی لمحے اسرائیل یا حماس میں سے کوئی ایک اس امن کی کوشش کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو اس کے پیچھے بھی ایک گہری اسرائیلی حکمتِ عملی کا ہاتھ ہوگا۔ اسرائیل کو بخوبی معلوم ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کی معیشت پر اس کا اثر و رسوخ کتنا مضبوط ہے، اور یہی طاقت اسے اپنے مفادات کے تحفظ میں غیر معمولی برتری فراہم کرتی ہے۔

گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے اپنے خلاف حماس کے حملوں کو ایک موقع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان حملوں نے عالمی سطح پر ایک ایسا تاثر پیدا کیا کہ جیسے اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے جو اپنے دفاع میں مصروف ہے، حالانکہ اس پس منظر میں غزہ کے عام شہریوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے گئے اور ڈھائے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کی اپنی پرانی حکمتِ عملی کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔

ٹرمپ کے اس امن منصوبے میں بظاہر فلسطینی عوام اور مسلم دنیا کے لئے کچھ مثبت نکات ضرور شامل کیے گئے ہیں لیکن یہ ظاہری نوعیت کے ہیں۔ ان میں یہ یقین دہانی بھی شامل ہے کہ غزہ کے رہائشیوں کو زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا اور جو لوگ پہلے ہجرت کر چکے ہیں وہ واپس آ سکیں گے۔ مزید برآں، ایک خصوصی اقتصادی زون کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جہاں ٹیرف ترجیحی بنیادوں پر طے ہوں گے تاکہ مقامی معیشت کو سہارا مل سکے۔ جنگ بندی کا فوری اعلان، ریلیف کا سامان غزہ تک پہنچانے کا انتظام، اور بنیادی سہولیات کی بحالی جیسے نکات بھی منصوبے میں شامل ہیں۔ بظاہر یہ سب کچھ غزہ کے عام عوام کے لئے ریلیف کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔


لیکن اگر منصوبے کے اندرونی ڈھانچے پر غور کیا جائے تو تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ اس منصوبے کی قیادت امریکی صدر براہِ راست کریں گے اور اس کے لئے جو انتظامی کمیٹی بنائی جائے گی اس میں صرف غیر سیاسی افراد اور ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔ واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس کمیٹی میں حماس کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس، جو غزہ کے زمینی حقائق میں ایک فیصلہ کن طاقت ہے، کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے۔ امن منصوبے میں حماس کی عدم موجودگی اس بات کا اعلان ہے کہ یہ معاہدہ دراصل امریکی اور اسرائیلی شرائط پر مبنی ہوگا، نہ کہ فلسطینی عوام کی حقیقی امنگوں پر۔

یہی وجہ ہے کہ اگرچہ اس منصوبے کو عالمی سطح پر پذیرائی ملتی دکھائی دے رہی ہے اور مختلف ممالک اس کے حق میں اپنی رضامندی ظاہر کر رہے ہیں، لیکن اس کی اصل کامیابی پھر بھی اسرائیل اور حماس کے رویے پر منحصر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا دونوں فریق مزید جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں یا اپنے مقاصد کے حصول تک اس امن منصوبہ کو ٹال سکتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں یہودی کارپوریٹ گھرانوں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ سرمایہ انہی اداروں سے آئے گا اور ان کی اولین ترجیح ہمیشہ اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ ہے، چاہے اس کے لئے کسی بھی عوام کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے جو منصوبہ بندی کی ہے، اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اسرائیل ایک تسلیم شدہ ریاست ہے جبکہ فلسطین کو ابھی محض چند ممالک نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ کئی ممالک پہلے سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، جس کا کوئی حقیقی اثر سامنے نہیں آیا۔ بعض اوقات ایسے اعلانات محض توجہ ہٹانے کے حربے معلوم ہوتے ہیں تاکہ اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کا یہ امن منصوبہ عملی طور پر کس حد تک کامیاب ہوگا، اور اس کے ثمرات سے کون فیضیاب ہوگا؟ ایک پہلو سے دیکھا جائے تو ترقی یافتہ اور خوشحال فلسطینیوں کو اس منصوبے سے وقتی فائدہ ضرور پہنچے گا۔ وہ اپنی تجارت، تعلیم اور بیرونی روابط کی بدولت کچھ سہولیات حاصل کر سکیں گے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ منصوبہ مسلم دنیا کے لئے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ مسلم ممالک کے حکمران بظاہر اس منصوبے کو اپنی حکومت بچانے کا ایک اور موقع سمجھیں گے، کیونکہ عالمی سطح پر ان کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ان ملکوں کے عوام جو جذباتی ہیں وہ ایک نئے بحران کی طرف دھکیلے جائیں گے، جو شاید موجودہ غزہ کی صورتحال سے بھی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ثابت ہو۔


اصل سوال یہ ہے کہ کیا امن کا مطلب صرف وقتی ریلیف ہے یا اس کا مقصد ایک پائیدار اور منصفانہ حل فراہم کرنا ہے؟ ٹرمپ کے منصوبے میں وقتی سکون تو شاید مل جائے، لیکن فلسطینی عوام کی نسل در نسل جدوجہد اور ان کی حقیقی خودمختاری کا خواب اس میں کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس منصوبے کو متنازع بناتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں اس کے خلاف آوازیں اٹھنے کا امکان بھی موجود ہے۔

مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ دراصل ایک سیاسی و اقتصادی حکمتِ عملی ہے، جس کی ڈور مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ فلسطینی عوام کو جزوی فائدہ اور وقتی سکون ضرور مل سکتا ہے، لیکن مسلم دنیا کے لئے یہ ایک اور بڑے چیلنج کا آغاز ہوگا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایسے منصوبے وقتی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں مگر انصاف اور مساوات پر مبنی دیرپا امن کا راستہ کھولنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔