کوئی عرب حکمراں ٹرمپ کا منصوبہ منظور نہیں کر سکتا...عبید اللہ ناصر

ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدے عالمی امن کی امید بنے، مگر اسرائیل نوازی اور فلسطینی ریاست کے خلاف اقدامات نے خطے میں کشیدگی بڑھا دی۔ فلسطینیوں کی مزاحمت اب بھی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے

<div class="paragraphs"><p>ڈونلڈ ٹرمپ / آئی اے این ایس</p></div>

ڈونلڈ ٹرمپ / آئی اے این ایس

user

عبیداللہ ناصر

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں امن قائم کرنے، جنگوں کے خاتمے اور امریکہ کی معاشی حالت کو مستحکم کرنے جیسے وعدے کیے تھے۔ ان میں دیگر ملکوں میں امریکی فوجی اڈوں کی کمی جیسے اقدامات شامل تھے، جنہوں نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ غزہ اور یوکرین میں انسانی المیہ کے پیشِ نظر عالمی رائے عامہ نے ٹرمپ کے وعدوں میں امید کی کرن دیکھی، حالانکہ اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ تمام امریکی صدور کی طرح اس کے پُرزور حامی رہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی اسرائیل نواز ثابت ہوئے۔

ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے ایک نیا تنازعہ پیدا کیا، جسے کسی بھی امریکی صدر نے اس سے قبل منظور نہیں کیا تھا۔ دوسری مدت کے انتخابی مہم کے دوران، جہاں انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کا وعدہ کیا، وہیں اسرائیل کے گریٹر اسرائیل منصوبے کی بھی حمایت کی۔ جو بائیڈن کی اسرائیل پالیسی سے ناراض امریکی مسلم ووٹروں نے غزہ میں جنگ بندی کے وعدوں کو اہمیت دی اور روایتی رویہ چھوڑ کر ٹرمپ کو ووٹ دیا۔

غزہ میں جنگ بندی کے حصول میں بائیڈن انتظامیہ کی سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو پر دباؤ کا بھی اثر تھا، جس کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ ہوا جو اسرائیل کی شکست کے مترادف تھا۔ تاہم اس میں ہزاروں بے گناہوں کی جانوں کا نقصان اور غزہ کی تباہی شامل رہی۔

ٹرمپ کو سب سے بڑا جھٹکا عرب ممالک سے لگا، جنہوں نے اگرچہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کی لیکن فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں بسانے کی تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ان ممالک نے واضح کیا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ ٹرمپ فلسطینیوں کے جذبہ حریت اور ان کی طویل جدوجہد کی حقیقت کو نظرانداز کرتے رہے۔


فلسطینی مزاحمت کے خلاف امریکی و اسرائیلی مظالم کے باوجود آزادی کا جذبہ کبھی کمزور نہیں ہوا۔ فلسطینی اپنی سرزمین، بالخصوص یروشلم اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ٹرمپ کو تاریخ کے سبق نظرانداز نہیں کرنے چاہئیں، چاہے وہ یاسر عرفات کے ساتھ ہونے والے معاہدے ہوں یا 1967 کی اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جن میں اسرائیل سے قبضہ شدہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مصر کے السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سمیت کسی عرب حکمران کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ٹرمپ کے متنازع منصوبے کو قبول کرے۔ فلسطینی اپنی سرزمین، خاص طور پر یروشلم اور قبلہ اول کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں، جس کا ادراک ٹرمپ کو نہیں ہے۔ شاید انہیں علم نہیں کہ ایک فلسطینی نے اردن کے موجودہ شاہ کے پردادا شاہ عبداللہ اول کو اس وقت قتل کیا تھا جب وہ مسجد اقصیٰ سے باہر نکل رہے تھے کیونکہ انہوں نے برطانوی منصوبے کے تحت یروشلم کو اردن میں شامل کر لیا تھا، جس پر 1967 کی جنگ تک اردن کا قبضہ رہا۔ اسی طرح مصری فوج نے صدر انور سادات کو ایک پریڈ کے دوران قتل کیا تھا کیونکہ انہوں نے امریکی دباؤ میں آ کر میدانِ جنگ میں جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ابراہمی معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کو عرب ممالک میں قبولیت دلانے کی کوشش کی تھی جسے فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنی قربانیوں سے ناکام بنا دیا۔

دوسری مدت کی صدارت کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی ٹرمپ نے جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے وہ ان کے دنیا میں امن قائم کرنے کے دعووں کے برعکس ہیں۔ انہوں نے کینیڈا، پاناما نہر، اور ڈنمارک کے حوالے سے جن منصوبوں یا خوابوں کا ذکر کیا ہے وہ ہٹلر کے گریٹر جرمنی منصوبوں کی یاد دلاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ملک، خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اپنی سرحدوں، اقتدارِ اعلیٰ، یکجہتی اور سب سے بڑھ کر اپنے وجود کی حفاظت ضرور کرے گا۔ اس حوالے سے کولمبیا کے صدر گستاوو پیڈرو نے انہیں ایک سخت خط لکھ کر آگاہ کیا کہ چھوٹا اور کمزور ملک ہونے کے باوجود وہ امریکہ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا یہ خط سوشل میڈیا (ایکس) پر وائرل ہو چکا ہے۔


ایک جاودانی حقیقت جسے ٹرمپ اور نیتن یاہو سمیت دنیا کے سبھی خود پسند اور طاقت کے زعم میں مبتلا رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ کسی قوم کے جذبۂ آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ہندوستان کے عوام نے دو سو سال تک برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کی اور آخرکار 1947 میں کامیابی حاصل کی۔ لیبیا نے دس برس تک اٹلی کے خلاف مزاحمت کر کے آزادی حاصل کی۔ جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں نے طویل عرصے تک سفید فام اقلیت کی غلامی برداشت کی لیکن آخرکار آزادی حاصل کر لی۔ فلسطینی بھی اپنا وطن واپس حاصل کریں گے، یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں کو سمجھنا ہوگا کہ جنگ کے بجائے امن ہی اسرائیل کے تحفظ اور دفاع کا بہترین راستہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین دو آزاد اور خودمختار ممالک کے طور پر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ سکتے ہیں اور یہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔ سو سالہ فلسطینی مزاحمت کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرمپ اور نیتن یاہو اسی راستے پر چل کر حقیقی امن اور استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔