روسی میزائل تجربہ: جوہری اسلحہ کی دوڑ دوبارہ شروع
بوریوسٹنک میزائل تجربے کے بعد ٹرمپ نے پینٹاگون سے روس کے جوہری اقدامات سے ہم آہنگ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا فوجی طاقت پر انحصار اور جوہری عدم پھیلاؤ کی وکالت کرنا دوہرے رویہ کی عکاسی کرتا ہے

حال ہی میں روس کے ایٹمی توانائی سے چلنے والے بوریوسٹنک کروز میزائل کے کامیاب تجربے نے روس اور مغرب، خاص طور پر امریکہ کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس میزائل کو قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے، جو میزائل ٹیکنالوجی میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کے ردعمل میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی دفاع کو روس کی نیوکلیئر صلاحیتوں کے ہم پلہ بنائے۔ امریکی ردعمل جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں بڑھتی ہوئی مسابقت کو اجاگر کرتا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بڑھانے کا مطالبہ ان کے جوہری عدم پھیلاؤ کے لئے مسلسل حمایت کے برخلاف ہے، جو سفارتکاری کے حوالے سے ایک پیچیدہ اور متضاد نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔
بوریوسٹنک میزائل کی اسٹریٹجک اہمیت
بوریوسٹنک ، یا ناٹو کی اصطلاح میں "اسکائی فال" میزائل، ایٹمی توانائی سے چلنے والا ایک کروز میزائل ہے جو کم بلندی پر اڑنے اور جدید میزائل دفاعی نظاموں سے بچنے کے قابل ہے۔ یہ میزائل لامحدود مدت تک فضا میں رہ سکتا ہے، جو میزائل دفاعی سسٹم کے لیے ایک نیا چیلنج پیش کرتا ہے۔ 2019 میں اس کے ایک ناکام تجربے کے دوران کئی سائنسدان ہلاک ہوئے تھے، مگر اب روس کا بوریوسٹنک میزائل کا فوجی ترقی کا پروگرام کامیابی کی طرف گامزن ہے۔
صدر پوتن نے اس میزائل کو روس کی قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسے عالمی ماحول میں جہاں امریکہ اور مغرب کی فوجی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ بوریوسٹنک کا ارتقاء روس کی اسٹریٹجک طاقت کے مظاہرے کے طور پر بھی دیکھاجا سکتا ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اپنے دفاع میں ایک نئے توازن کی کوشش کر رہا ہے۔
ٹرمپ کا دوہرا موقف
روس کے حالیہ تجربات کے پیش نظر، صدر ٹرمپ نے پینٹاگون سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی دفاع کو روس کی نیوکلیئر صلاحیتوں کا ہم پلہ بنائے۔ ان کے خیالات امریکہ کے اس موقف کی عکاسی کرتے ہیں جس کے مطابق فوجی طاقت قومی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ ٹرمپ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو فوجی صلاحیتوں میں برتری حاصل رکھنی چاہیے، خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے شعبے میں۔
تاہم، ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں پر موقف پیچیدہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف امریکہ کی جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کی بات کی بلکہ عالمی سطح پر ان ہتھیاروں کے ذخیرے میں کمی کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ ان کی انتظامیہ نے روس کے ساتھ نیوکلیئر اسلحہ کنٹرول کے مذاکرات کیے اور "نیو اسٹارٹ" معاہدے کی مدت میں توسیع کی، جس میں دونوں ممالک کی اسٹریٹجک نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد محدود کی گئی تھی۔ ٹرمپ کی ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے لیے حمایت، ان کے اس موقف کے ساتھ تضاد رکھتی ہے کہ امریکہ کو اپنی نیوکلیئر صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا متضاد رویہ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے تعلق سے ہونے والی سفارتکاری میں موجود پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
فوجی طاقت بمقابلہ جوہری عدم پھیلاؤ
ٹرمپ کے بیانات ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی کرتے ہیں: یہ کہ نیوکلیئر عدم پھیلاؤ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے فوجی طاقت کے ضروری توازن کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ٹرمپ نے ہمیشہ جوہری اسلحہ کے ذخیرے میں کمی کرنے کی بات کی ہے، خاص طور پر روس کے ساتھ نیوکلیئر معاہدوں پر بات چیت کرنے کی حمایت کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں میں کمی نہ صرف عالمی سطح پر استحکام کا سبب بنے گی بلکہ اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے۔
اس کے علاوہ، چین کی بڑھتی ہوئی ایٹمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، ٹرمپ نے چین کو ایٹمی مذاکرات میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ چین اس وقت دنیا کی تیسری سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایک جامع نیوکلیئر اسلحہ کنٹرول معاہدہ تب ہی ممکن ہے جب اس میں چین کو بھی شامل کیا جائے۔
پوتن کا موقف اور عالمی سلامتی
روسی صدر پوتن کے جوہری اقدامات، بشمول بوریوسٹنک میزائل کی ترقی اور کامیاب تجربہ، ایک دفاعی حکمت عملی اور سیاسی ہتھیار کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ روس کا یہ موقف کہ جوہری ہتھیار اس کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہیں، اس بات کا مظہر ہے کہ روس ناٹو کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور امریکہ کے میزائل دفاعی نظاموں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں پر انحصار کرتا ہے۔
پوتن کے مطابق، بوریوسٹنک میزائل جیسے جدید ہتھیار روس کو اس کے دفاعی مقاصد کے لیے قوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ میزائل روس کو اپنی سرحدوں کے قریب امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے ممکنہ حملوں سے بچنے کا موقع دیتے ہیں۔ تاہم، یہ "نیوکلیئر پوسچرنگ" عالمی سطح پر ایک نئی اسلحہ کی دوڑ کا آغاز کر سکتی ہے، جس سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی اور مزید ممالک کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جوہری اسلحہ پر مذاکرات کی ضرورت
ٹرمپ کی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے بارے میں خواہش اور ان کا روس کے ساتھ مذاکرات کرنے کا ارادہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جوہری اسلحہ کی دوڑ کو روکنے اور اس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سفارتکاری ایک پیچیدہ عمل ہے، لیکن یہ عالمی سطح پر استحکام کے لیے ضروری ہے۔ چین، روس اور امریکہ کے درمیان جوہری اسلحہ پر بات چیت کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف جوہری ہتھیاروں میں کمی کی جا سکے بلکہ ان کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکے۔ اس کے باوجود، جوہری اسلحہ کے ذخیرے میں کمی کی کوششیں ایک مشکل راستہ ہوں گی کیونکہ روس اور چین جیسے ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں کو سیاسی اور اسٹریٹجک طور پر ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے، جوہری مذاکرات میں کامیابی کے لیے شفافیت، اعتماد اور مؤثر تصدیقی طریقہ کار کی ضرورت ہوگی۔
امریکہ، روس اور چین کے درمیان کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں، اور جوہری سفارتکاری کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ٹرمپ کا روس کے ایٹمی اقدامات کے ہم پلہ ہونے کا مطالبہ ان کے لیے فوجی طاقت کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ان کا ایٹمی عدم پھیلاؤ کے لئے موقف عالمی سطح پر جوہری اسلحہ کم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ لہٰذا، آگے بڑھنے کے لیے ایک توازن پیدا کرنا ہوگا، جو فوجی طاقت کو مستحکم رکھے اور ساتھ ہی جوہری اسلحہ کی کمی کے لیے عالمی بات چیت کو فروغ دے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات چیت میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ جوہری اسلحہ کی دوڑ کو روکنے اور ایک محفوظ دنیا کے قیام میں مدد دے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔