ٹرمپ نے تارکین وطن نہیں، ہندوستان کے وقار کو مجروح کیا!

ٹرمپ نے ہندوستانی تارکین وطن کو پابہ زنجیر وطن واپس بھیجا، جس پر وزیر خارجہ جے شنکر نے شرمناک دفاع کیا۔ جبکہ کولمبیا نے اپنے شہریوں کی عزت بحال رکھی۔ ماضی میں ہندوستان نے وقار برقرار رکھا تھا

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این&nbsp;ایس</p></div>

تصویر آئی اے اینایس

user

عبیداللہ ناصر

ابتدا میں ہی یہ واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے جن ہندوستانیوں کو نہایت ہی توہین آمیز انداز میں پابہ زنجیر اور ہتھکڑی میں وطن واپس بھیجا ہے، ان میں زیادہ تر غیر قانونی طور پر امریکہ نہیں گئے تھے۔ ان کے پاس ورک پرمٹ تھا جس کی تجدید نہیں ہوئی تھی، پھر بھی سابقہ امریکی حکومتوں نے ان کو کچھ اقتصادی سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی تھی، جو ٹرمپ نے آتے ہی منسوخ کر دیں۔

ایک طرف ہندوستانی پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ جے شنکر کا ہندوستانیوں کے ساتھ امریکہ کے توہین آمیز رویے کا پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے دفاع ہے اور دوسری جانب امریکہ کی ناک کے نیچے بسے کولمبیا اور کینیڈا نے اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے کی امریکہ کو اجازت نہیں دی۔ کولمبیا کے تارکین وطن کو اسی انداز میں لے کر جب امریکہ کا فوجی جہاز ہوائی اڈے پر پہنچا، تو کولمبیا کی حکومت نے اسے اترنے کی اجازت نہیں دی۔ خبروں کے مطابق، دو گھنٹے تک کولمبیا کی فضاؤں میں اڑتے رہنے کے بعد جھک مار کر وہ امریکہ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد کولمبیا نے اپنا جہاز بھیج کر اپنے شہریوں کو عزت کے ساتھ واپس بلا لیا۔ کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے کہا کہ تارکین وطن جرائم پیشہ نہیں ہیں اور ان سے ایک انسان کے طور پر ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔ اسی لیے ہم نے امریکی جہاز کو واپس بھیج دیا، میں اپنے شہریوں کو پورے عزت اور احترام سے ان کے وطن واپس لاؤں گا۔

کتنا شرمناک ہے کہ امریکہ کے زیر اثر بسا کولمبیا اور کینیڈا امریکی دھونس کے سامنے جھکنے سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ ڈیڑھ ارب کی آبادی، دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت اور فوجی طاقت رکھنے والا ملک امریکہ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ سماج کے اس طبقے کو بھی قومی غیرت اور خودداری کا احساس نہیں، جو ہمہ وقت راشٹرواد اور ملک کو وشو گرو بنانے کی بات کرتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے یہ سبھی الفاظ محض مودی پرستی سے آگے کچھ بھی نہیں ہیں۔

امریکہ سے جس طرح غیر قانونی تارکین وطن کو پابہ زنجیر اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امریکی فوج کے ایک مال بردار جہاز میں ٹھونس کر ہندوستان واپس بھیجا گیا، اور دوران حراست و دوران سفر ان کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا، اس پر ملک کے مودی پرستوں (بھکتوں) کو چھوڑ کر پورا ملک سراپا احتجاج تھا۔ ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے ہندوستانی پارلیمنٹ میں اسے حق بجانب قرار دیا، اس نے ہندوستان کے قومی وقار کو ٹرمپ کے جوتوں کے سامنے رگڑ دیا۔


سوچئے، اگر اس طرح ہندوستانیوں کی واپسی کانگریس کے دور حکومت میں کسی عرب ملک سے ہوئی ہوتی، تو یہ پورا سنگھی گینگ آسمان سر پر اٹھا لیتا اور پوری بے شرمی سے ناگن ڈانس کر رہا ہوتا۔ عرب ملکوں میں امریکہ سے زیادہ ہندوستانی ملازمت اور تجارت کرتے ہیں، ان کے بھی ویزے کی مدت ختم ہو جاتی ہے اور وہ برسوں چوری چھپے وہاں رہتے ہیں، اور پکڑے جانے پر واپس بھیج دیے جاتے ہیں، مگر نہ انہیں پابہ زنجیر کیا جاتا ہے، نہ ہتھکڑی لگائی جاتی ہے اور نہ ہی مال بردار جہازوں میں بھیجا جاتا ہے۔ وہ ریگولر پرواز سے وطن واپس آتے ہیں، بغیر کسی احساس ندامت کے۔

اس سے پہلے بھی جے شنکر ہندوستان کے وقار کو اس وقت مٹی میں ملا چکے تھے جب وہ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں نریندر مودی کی شرکت کے لیے دعوت نامہ حاصل کرنے کے واسطے ایک ہفتہ واشنگٹن میں پڑے رہے۔ یہ انکشاف سب سے پہلے بی جے پی کے ہی سابق رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے کیا تھا، لیکن جے شنکر نے پھر ایوان کو گمراہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دعوت نامہ حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن میں نہیں تھے، مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ واشنگٹن میں کیوں تھے، کس سرکاری کام سے گئے تھے، کس کانفرنس یا میٹنگ میں شرکت کی تھی؟

شرم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ امریکہ کی اس نازیبا حرکت کو درست قرار دے کر ان تارکین وطن کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ قانونی طریقے سے امریکہ کیوں نہیں گئے؟ ان لوگوں کو نہیں پتہ کہ ترکِ سکونت انسانی تہذیب کے ارتقا میں سب سے پہلے شروع ہوئی تھی۔ بہتر زندگی اور بہتر سہولتوں کی تلاش میں ترکِ سکونت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اگر ان تارکین وطن کو ہندوستان میں بہتر روزگار، ملازمت اور تعلیم مل رہی ہوتی، تو یہ لوگ زمین، جائیداد، گھر کی خواتین کے زیورات فروخت کر کے اور قرض لے کر زندگی کے لیے اتنے خطرے کیوں مول لیتے؟

یاد کیجیے آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دور، جنہیں مودی پرست ملک کا کمزور ترین وزیر اعظم کہتے تھے اور طرح طرح کے بیہودہ الفاظ ان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ انہی منموہن سنگھ کے دور میں امریکہ میں تعینات ایک خاتون سفارت کار، دیویانی کھوبرا گڑے، اپنی ہندوستانی ملازمہ کے ساتھ امریکی قانون کے مطابق ناروا سلوک کرنے کے الزام میں ماخوذ ہو گئیں، اور نیویارک پولیس نے انہیں ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا۔ ہندوستان نے احتجاج کیا اور کہا کہ سفارتی آداب اور اصول کے تحت انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر امریکہ تو امریکہ ہے، اس نے جواب دیا کہ دیویانی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے انہیں سفارتی چھوٹ اور حقوق نہیں دیے جا سکتے۔


بس پھر کیا تھا، حکومت ہند نے دہلی میں امریکی سفارت خانے کی سیکورٹی گھٹا دی، سفارت خانے کے چاروں طرف تعینات بلڈوزر ہٹا دیے، پولیس والوں کی تعداد کم کر دی، سفارت خانے کو بھیجی جانے والی اشیائے خورد و نوش کی کلیئرنس روک دی گئی، اور سفارتی عملے کے ڈپلومیٹک پاس بھی روک دیے گئے۔ امریکہ کے ہوش اڑ گئے، اور دیویانی کو بغیر ہتھکڑی لگائے ہندوستان واپس بھیج دیا گیا۔ اس پر امریکی خارجہ سیکرٹری جان کیری نے منموہن سنگھ کے قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر سے فون پر گفتگو کر کے اس معاملے پر افسوس ظاہر کیا۔

آنجہانی اندرا گاندھی نے ساتویں امریکی فوجی بیڑے کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور کس طرح امریکہ کی فوجی طاقت کے غرور کو مٹی میں ملا دیا تھا، یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے، بھلے ہی مودی پرست اس کا ذکر نہ کریں۔

پنڈت جواہر لال نہرو کے دور میں تو امریکہ اور سوویت یونین دونوں کی اوقات ہی نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کوئی نازیبا برتاؤ کر سکیں، حالانکہ تب ہندوستان معاشی اور فوجی طور پر بہت کمزور تھا، اور ہندوستانیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے امریکی گیہوں پر منحصر تھا، مگر پھر بھی گیہوں سے زیادہ قومی وقار کو اہمیت دی جاتی تھی۔

آج کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہندوستان کا قومی وقار بی جے پی حکومت کے ماتحت اب کوئی معنی نہیں رکھتا اور دنیا کو دکھانے کے لیے وشو گرو کا نعرہ محض کھوکھلا دعویٰ بن کر رہ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔