گم نام مجاہد آزادی نواب خیراتی خاں پنڈاری اور مظفر نگر موضع جولا کی معرکہ آرائی
1857ء میں نواب خیراتی خاں پنڈاری نے مظفر نگر اور موضع جولا میں برطانوی کمپنی کے خلاف بہادری سے لڑائی کی، دیہاتوں کی حمایت حاصل کی اور مادر ہند کے لیے قربانیاں دیں

ہم سب برطانوی غلامی کے خلاف جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے بہادر مجاہدین کے کارناموں سے واقف ہیں، مگر بہت سے ایسے سپہ سالار بھی ہیں جن کے کارناموں پر کم روشنی پڑی۔ 1857ء کے گمنام سپہ سالار نواب خیراتی خاں پنڈاری انہی عظیم ہستیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے کمپنی بہادر کے متعدد محاذوں پر دانت کھٹّے کیے، مگر تاریخ دانوں نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
میرٹھ میں 10 مئی 1857ء کو طبل انقلاب بجنے کے بعد مظفر نگر میں 13 مئی کو دیہاتیوں نے عوامی املاک اور برطانوی بنگلے نذر آتش کر دیے۔ وہاں خزانے کی حفاظت کے لیے جو دستہ تعینات تھا، وہ میرٹھ کی انقلابی 20ویں دیسی پلٹن سے تعلق رکھتا تھا، جس نے اپنے ساتھیوں کی تقلید کرتے ہوئے مظفر نگر میں جمع 85,000 روپے لوٹ لیے۔ صورتحال دیکھ کر کلکٹر و مجسٹریٹ برفورڈ ابو پورہ میں روپوش ہو گیا، جہاں وہ 29 مئی کو مارا گیا۔
اس کے بعد قائم مقام مجسٹریٹ آر ایم ایڈورڈس کو تعینات کیا گیا، جنہوں نے ضلع میں اعلان کیا کہ جو بھی شخص انقلابی سرگرمیوں میں ملوث یا انقلاب کی تبلیغ کرے گا، اسے فوری پھانسی دی جائے گی۔ مگر یہ نوٹس وطن کے جوانوں پر اثر انداز نہ ہوا۔ کیرانہ، تھانہ بھون، کاندھلہ اور شاملی میں مجاہدین بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہو گئے۔ کاندھلہ میں نواب خیراتی خاں پنڈاری نے قیادت سنبھالی اور انقلابیوں نے محدود وسائل کے باوجود کمپنی فوج کو دن میں تارے دکھا دیے۔
2 ستمبر کو مسٹر گرانٹ کی قیادت میں فوجی دستہ پہنچا، مگر نواب خیراتی خاں کی رہنمائی میں مجاہدین نے اسے پسپا کر دیا، جس سے کمپنی فوج کی حقیقت عیاں ہو گئی۔ جولا، بڑوت اور بجرول کے لوگوں نے خیراتی خاں کا مکمل ساتھ دیا، پولیس کو قلعہ بڈھانہ سے نکالا اور اپنا صدر مرکز قائم کیا۔ خیراتی خاں دہلی جا کر مغل بادشاہ سے امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ان کے ہمراہ حمید اللہ خاں (بڑھانہ) اور حلقے کے جاٹوں نے بھرپور مدد کی، جس کے نتیجے میں اطراف کے دیہاتوں میں کمپنی عملداری ختم ہو گئی۔
12 ستمبر کو جھنجھانہ میں محصول وصول کرنے والے مزدوروں کا انقلابی حامیوں نے پیچھا کیا اور کاندھلہ میں بھی محصولاتی کارکنوں پر حملہ کیا گیا۔ مزدور اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ کمشنر میرٹھ ایف ویلیمس نے قائم مقام مجسٹریٹ آر ایم ایڈورڈس کو ہدایت دی کہ لیفٹیننٹ کرنل ڈیوس کے شہ سوار دستے جولا پر حملہ کر کے قلعے کو خالی کرائیں اور جولا کو برباد کریں۔
ایڈورڈس نے بڈھانہ پر یلغار کی۔ نواب خیراتی خاں کے کارندوں نے بھرپور مزاحمت کی اور گاؤں لوئی کے کنور صاحب کے دستے نے بھی معاونت فراہم کی۔ مشترکہ افواج کی کمان نواب خیراتی خاں اور دوست میر خاں نے سنبھالی۔ 13 اور 14 ستمبر کی رات کو زبردست حملہ ہوا مگر انقلابیوں نے جولا میں موجود دشمن فوج کو شکست دی۔ 14 ستمبر کو دو سو سورماؤں نے مادر ہند کی بقا اور حرمت پر اپنی جانیں نثار کیں۔ قلعے میں موجود باقی انقلابی راہ فرار اختیار کر گئے لیکن لیفٹیننٹ کیلر جولا میں رہنے سے خوفزدہ رہا اور بڈھانہ بھاگ کر سانس لیا۔

نواب خیراتی خاں کی حویلی کی باقیات/ تصویر شاہد صدیقی علیگ
اس خونریز جنگ کے بعد نواب خیراتی خاں یوں گم ہوئے کہ ان کی زندگی کے بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ملتی۔ ایرک اسٹوکس نے نواب خیراتی خاں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا، ’’بغاوت کو فروغ دینے یا دبانے کی مہم میں بعض اوقات ادنیٰ طبقہ مقتدر عناصر کے خلا کو پُر کر دیتا ہے، جیسا کہ بزرگ خیراتی خاں پنڈاری موضع پراسولی نے اپنی سرگرمیوں سے ثابت کیا۔ اگست 1857ء کے اواخر میں انہوں نے سرکش جاٹوں کی کمان سنبھالی، جبکہ عموماً محدود وسائل کی وجہ سے لوگ بڑے رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔‘‘
نواب خیراتی خاں پنڈاری کی قربانیاں اور رہنمائی مظفر نگر کے موضع جولا کے عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اور 168ویں سالگرہ پر ان کی بہادری کو یاد کیا جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔