بہار کی خواتین قرض کے جال سے کیسے نجات پائیں...نندلال شرما
بہار کی ہزاروں خواتین مائیکروفنانس کے بھاری سود، بے رحمانہ وصولیوں، بدسلوکی اور خوف کے ماحول میں جکڑی ہوئی ہیں۔ علاج، تعلیم اور ضرورت کے وقت لیے گئے قرض نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے

ریحانہ کی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ہر وقت یہ خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں قرض کی وصولی کرنے والے ان تک نہ پہنچ جائیں۔ اسی لیے وہ لگاتار اپنا گھر بدلتی رہتی ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ ابھی تک اتنی استطاعت رکھتی ہیں کہ کرائے کا مکان لے سکیں لیکن یہ زندگی کبھی ان کی حقیقت نہیں تھی۔ ایک زمانے میں وہ بیگوسرائے میں ایک خود امدادی گروپ کی سربراہ تھیں مگر اب وہ انہی مائیکروفنانس قرضوں کے بے لگام ایجنٹوں سے چھپتی پھرتی ہیں جو ان کے گروپ کے بقیہ قرض کے لیے انہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس دباؤ کا شکار صرف وہ نہیں، کئی خواتین اپنے گاؤں تک چھوڑ چکی ہیں۔ مائیکروفنانس قرض کی ادائیگی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر چند لوگ بھی قسط نہ چکا پائیں تو بوجھ پورے گروپ پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ریحانہ کے لیے سودخوروں سے بچنے کا واحد راستہ بس بھاگتے رہنا ہی تھا۔
بہار میں ریحانہ جیسی ہزاروں خواتین مائیکروفنانس کے بڑھتے ہوئے قرضوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ شروع میں امید دلانے والے یہ قرض بہت جلد مایوسی، استحصال اور خوف کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں بدل جاتے ہیں۔ سیوان کی گیتا دیوی نے مویشی خریدنے کے لیے پچاس ہزار روپے کا قرض لیا تھا مگر وہ ادائیگی کی اصل شرائط سمجھ ہی نہیں پائیں۔ 27.9 فیصد سالانہ کا بھاری سود، جو ہر پندرہ دن بعد بھرنا تھا۔ کچھ ہی دن میں وہ ادائیگی سے قاصر تھیں اور پھر ان کے دروازے پر قرض وصولی کرنے والوں کی دھمکیوں، گالیوں اور دروازے پر دیر تک جمے رہنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دو سال گزر چکے ہیں اور گیتا دیوی اور ان کا گھرانہ مسلسل خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔
گزشتہ ستمبر اور اکتوبر میں دہلی کی سماجی کارکن شبنم ہاشمی تقریباً ڈیڑھ ماہ تک بہار کے 20 اضلاع میں گھومتی رہیں اور 6 ہزار ایسی ہی خواتین سے ملیں۔ وہ خود کہتی ہیں کہ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ صورتحال اتنی سنگین ہے۔ انہوں نے گفتگو کے دوران نوٹس لیے، ویڈیو ریکارڈنگ بنائی اور ان خوفزدہ خواتین کو دلاسہ دینے کی کوشش کی جن کی زندگیاں مکمل طور پر بدل چکی تھیں۔ شبنم کا شکوہ ہے کہ میڈیا نے خود امدادی گروپوں کی کامیابیاں تو دکھائیں مگر ان عورتوں کی تباہ حال زندگیوں کو دکھانے میں دلچسپی نہیں لی۔ دہلی کے صحافیوں کو بھی انہوں نے اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی مگر شاید ان کی ترجیحات اسمبلی انتخابات جیسے موضوعات تک محدود تھیں۔
شبنم نے پایا کہ خوف، دباؤ اور مایوسی کے اس ماحول میں بہت سی خواتین نے علاج، بچوں کی پڑھائی یا گھر کے ضروری اخراجات کے لیے قرض لیا تھا مگر اب وہ شدید قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ ان میں مظفرپور کی رادھا دیوی بھی شامل ہیں جن کے خاندان کے چار میں سے کوئی بھی مرد روزگار پر نہیں تھا۔ بیٹی کی پڑھائی کے لیے انہیں قرض لینا پڑا مگر اب وہ وصولی ایجنٹوں کے مسلسل دباؤ سے اذیت میں مبتلا ہیں۔
بہار میں مائیکروفنانس کا بازار بندھن بینک، اُتکرش اسمال فنانس بینک، اُجّیون اسمال فنانس بینک، بجاج فنانس، متھوٹ مائیکروفنانس، سوتنتر مائیکروفنانس، بیل اسٹار مائیکروفنانس اور دیگر کئی اداروں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بینک اکثر انتہائی بھاری کمپاؤنڈ انٹریسٹ (سود پر سود) کے تحت قرض دیتے ہیں، جو بعض اوقات سالانہ 40 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک قرض چکانے کے لیے دوسرا قرض لینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور یوں عورتیں ایک نہ ختم ہونے والے قرض کے جال میں پھنستی چلی جاتی ہیں۔
شبنم کے لیے یہ تجربات انتہائی تکلیف دہ تھے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سے ملنے والی خواتین ہو یا مقامی کارکن — کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ ان قرضوں کو کن قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے۔
ہندوستان میں مائیکروفنانس ایک بہت ہی مبہم قانونی دائرے میں چلتا ہے۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ 2011 کی آر بی آئی کی ’مالیگام کمیٹی رپورٹ‘ سے بنا، جس نے مائیکروفنانس کو ایک الگ قرضی نظام کے طور پر تسلیم کیا اور کچھ اصول وضع کیے۔ جولائی 2013 میں کچھ احکامات جاری ہوئے مگر ایک جامع قانون، مائیکرو فنانس انسٹی ٹیوشنز (ترقی و ضابطہ) بل 2012 آج تک التوا کا شکار ہے۔
جن 6 ہزار خواتین سے شبنم نے بات کی، ان میں سے تقریباً نصف کا کہنا تھا کہ وہ قرض کے بوجھ میں دب چکی ہیں۔ یا تو گھر میں روزگار نہیں تھا یا بہت کم تھا اور خاندان کے اکثر مرد بے روزگار تھے۔ زیادہ تر خواتین کو یہ بتایا گیا تھا کہ قسطیں ماہانہ دینی ہوں گی مگر بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ہر ہفتے یا پندرہ دن بعد قسط ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت انہیں تب معلوم ہوتی ہے جب وصولی والے ان کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں۔
صرف دھمکیاں ہی نہیں، گھروں سے ایل پی جی سلنڈر، چھت کی چادریں، بکریاں تک اٹھا لے جانے کے واقعات سامنے آئے۔ جن عورتوں کے شوہر روزگار کی تلاش میں باہر رہتے ہیں، ان کے ساتھ حالات اور بھی بگڑ جاتے ہیں۔ بعض ایجنٹ رات بھر رکنے جیسی نازیبا شرطیں رکھتے ہیں۔ جنسی استحصال کے کئی واقعات دبے لفظوں میں بیان کیے گئے۔ بعض جگہ تو پورے خاندان اپنا گھر چھوڑ کر نکل گئے تاکہ اس اذیت سے جان چھوٹ سکے۔ ایک سے زیادہ واقعات میں ایسا بھی ہوا کہ گھر میں لاش رکھی تھی مگر ایجنٹس نے آخری رسومات تک کی اجازت نہیں دی جب تک قسطیں ادا نہ کر دی جائیں۔
میڈیا میں این ڈی اے حکومت کی خواتین سے متعلق اسکیموں کی بہت تعریف ہوتی ہے مگر شبنم نے پایا کہ ان مستفیدین کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہر جگہ رشوت، دلالی اور بدعنوانی کی شکایات عام تھیں۔ انتخابات سے چند ماہ قبل اعلان کردہ 10 ہزار روپے کی امداد کے لیے بھی خواتین سے 300 روپے فارم کے نام پر لیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر نذرانے کے کوئی سرکاری فائدہ نہیں ملتا، ہر اسکیم کی اپنی طے شدہ قیمت ہے جو دینا لازم ہوتی ہے۔
ریزرو بینک کی خود ساختہ ضابطہ کار تنظیم ’سا-دھن‘ کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2025 تک 57,712 کروڑ روپے کے بقیہ مائیکروفنانس قرض میں بہار پورے ملک میں سب سے آگے تھا۔ شبنم کا اندازہ ہے کہ 1.08 کروڑ خواتین اس قرض کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں اور سود سمیت اصل رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ حالات وہی بات ثابت کرتے ہیں جو کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ-لینِن) کے رہنما دیپانکر بھٹاچاریہ بارہا کہتے رہے ہیں۔ حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق بہار کے 94 لاکھ سے زیادہ خاندانوں کی ماہانہ آمدنی 6 ہزار روپے سے بھی کم ہے یعنی وہ 200 روپے روزانہ بھی نہیں کما پاتے۔ یہ منریگا کی کم از کم اجرت سے بھی نیچے ہے اور ایک خاندان چلانے کے لیے بالکل ناکافی۔ دیپانکر کا کہنا ہے کہ مائیکروفنانس اداروں نے بہار کے دیہات میں ’دہشت کا راج‘ قائم کر رکھا ہے، ایک ایک گاؤں میں آٹھ دس کمپنیاں سرگرم ہیں۔
دیپانکر کے مطابق انتخابات کے دوران خواتین نے زور سے نعرے لگائے، ’دس ہزار میں دم نہیں، قرض معافی سے کم نہیں‘۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی نقد رقم سے بحران حل نہیں ہوگا، پورے بہار میں بڑے پیمانے پر قرض معافی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
مہاگٹھ بندھن نے وعدہ کیا تھا کہ خواتین کے قرض پر سود معاف کیا جائے گا اور نئی حکومت سے بھی ایسی توقعات ہوں گی، مگر شبنم اسے ناکافی قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اصل راحت کے لیے کم از کم بنیادی قرض کی جزوی معافی اور ادائیگی کی مدت میں نرمی ضروری ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ جب بڑے صنعت کاروں کے ہزاروں کروڑ کے قرض معاف ہو سکتے ہیں، تو غریب ترین خواتین کے معمولی قرض کیوں نہیں؟
حکومت کو چاہئے کہ ان قرضوں کے جال کو توڑے، خواتین کی عزتِ نفس بحال کرے اور نظامی اصلاحات کے ذریعے انہیں پھر سے اعتماد دلائے۔ ان خواتین کو ترس سے زیادہ انصاف کی ضرورت ہے۔
(نام تبدیل کر دیے گئے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔