تجارتی جنگ: امریکی پالیسیوں سے عالمی تجارت میں بے یقینی
ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکہ کے اتحادی ناراض ہیں، اب چین کے خلاف تعاون میں بھی ہچکچاہٹ ہے۔ عالمی تجارت دباؤ کا شکار ہے اور معاشی تعلقات میں غیر یقینی بڑھ رہی ہے

تجارتی جنگ کے اثرات امریکہ سمیت کئی ممالک پر پڑ رہے ہیں۔ مسلسل تین مہینوں کی توہین، ٹیرف لگانے اور یہاں تک کہ اپنے کچھ بہترین اتحادیوں پر قابض ہونے کی دھمکی دینے کے بعد، امریکہ اپنے دوستوں کو واپس چاہتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کو اچانک کچھ مدد کی ضرورت ہے اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ میں اتحادیوں کی تلاش میں ہیں۔ سی این این میں شائع اپنے تجزیے میں اسٹیفن کولنسن لکھتے ہیں کہ امریکی صدر نے چین کے ساتھ تجارتی تصادم کو بڑھا تو دیا لیکن لگتا ہے کہ وہ اسے جیتنا نہیں جانتے۔ لہٰذا، ان کی انتظامیہ چینی صدر شی جن پنگ کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے، تاہم جن پنگ ٹرمپ کی دھونس میں آنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ لیکن ایک چیز ہے جو کام کر سکتی ہے۔ وہ ہے امریکہ کی عالمی طاقت اور شاید یہ بیجنگ پر مارکیٹ تک رسائی، دانشورانہ املاک کی چوری، صنعتی جاسوسی اور دیگر مسائل کے بارے میں مسلسل امریکی شکایات پر کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ درپیش آ سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر ٹرمپ کے "سب سے پہلے امریکہ" کے منتر سے متصادم ہوگا۔
کولنسن کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے گزشتہ ہفتے فاکس بزنس پر نشاندہی کی تھی کہ جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام اور ہندوستان جیسے امریکی اتحادی جلد ہی واشنگٹن کے ساتھ تجارتی مذاکرات کریں گے۔ بیسنٹ کے مطابق، ہر کوئی میز پر آ رہا ہے، اور بنیادی طور پر چین کو گھیر لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، مذاکرات کا ایک موضوع ایک مشترکہ مقصد ہونا چاہیے: "ہم چین کو دوبارہ توازن میں کیسے لا سکتے ہیں؟" وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ سے پوچھا گیا کہ جب ٹرمپ دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ یکساں سلوک کر رہے ہیں تو امریکی اتحادی چین کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کیوں کریں گے؟ لیویٹ نے جواب دیا: "آپ کو ہمارے اتحادیوں سے بات کرنی ہوگی جو ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ فون بج رہے ہیں۔ انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انہیں امریکہ کی ضرورت ہے، انہیں ہماری مارکیٹوں کی ضرورت ہے، انہیں ہمارے صارفین کی ضرورت ہے۔"
لیکن صدارتی دفتر میں واپس آنے کے بعد ٹرمپ نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ ہم خیال جمہوریتوں کے گروپوں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کئی بار، انہوں نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی، ان کا خیال ہے کہ تجارت میں امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے یورپی یونین بنایا گیا تھا۔ یورپ سے نفرت کرنے والے ٹرمپ واحد نہیں ہیں۔ نائب صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکورٹی فورم میں یورپی براعظم کے لیے اپنی ناگواری کا اظہار کیا تھا۔
مغربی نصف کرہ میں ٹرمپ کی مخالفت بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایک متحد شمالی امریکہ کے تجارتی پاور ہاؤس کو طویل عرصے سے چین کے خلاف ممکنہ رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے بار بار کینیڈا پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی ہے اور میکسیکو کو اپنے کچھ سخت ترین محصولات کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔ کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک کے واشنگٹن کے ساتھ روایتی تعلقات ختم ہو چکے ہیں۔ کولنسن کا کہنا ہے کہ چین کے تجارتی طریقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ایک اتحادی محاذ بنانے کا خیال اچھا ہے، لیکن ٹرمپ نے اسے روک دیا۔
جنوری 2017 میں اپنی پہلی صدارتی میعاد کے پہلے دن، ٹرمپ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ سے دستبردار ہو گئے، 12 ممالک کے اس گروپ میں میکسیکو، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا جیسے اتحادی شامل تھے، جبکہ چین شامل نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ نے ایک ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنرشپ کو بھی ختم کر دیا جو دنیا کی دو بڑی منڈیوں کو آپس میں جوڑ دیتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ نے امریکہ کے دوستوں کو اتنا الگ کر دیا ہے کہ وہ ان کی کال نہیں لیں گے۔ اوبامہ انتظامیہ میں اقتصادی مشیروں کی کونسل کی سربراہی کرنے والے جیسن فرمن کے مطابق، "امریکہ اس وقت دنیا میں کسی کے لیے بھی ناقابل یقین حد تک ناقابل اعتماد پارٹنر ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ ہم کس طرح قابل اعتماد ہوں گے۔"
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے 'بین الاقوامی تجارتی مرکز' (آئی ٹی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پامیلا کوک ہیملٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک پر تجارتی ٹیرف عائد کیے جانے سے عالمی تجارت تین فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کا نتیجہ طویل مدتی طور پر علاقائی تجارتی روابط کی تشکیل نو اور ان میں وسعت و مضبوطی کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اس سے سپلائی چین میں تبدیلی اور عالمی تجارتی اتحادوں کی تجدید دیکھنے کو مل سکتی ہے جبکہ ارضی سیاسی اور معاشی تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے چین کے علاوہ بیشتر ممالک پر عائد کردہ تجارتی ٹیرف کے اطلاق میں 90 روزہ وقفے کا اعلان ہونے کے بعد جنیوا میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے ان فیصلوں سے میکسیکو، چین اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے علاوہ جنوبی افریقی ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے اور خود امریکہ بھی ان فیصلوں کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔ انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے اندازے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں چین اور امریکہ کے مابین تجارت میں 80 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت مجموعی عالمی تجارت کا تین تا چار فیصد ہے جبکہ باقی 96 فیصد تاحال معمول کے مطابق ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے 'دوطرفہ' قرار دیے گئے ٹیرف کا بیشتر ممالک کی درآمدات پر اطلاق ہوتا ہے اور ان کی کم از کم شرح 10 فیصد ہے جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے، لیکن چین کی امریکہ کو برآمدات پر 145 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔ اس کے جواب میں چین نے امریکہ سے آنے والی تجارتی اشیا پر ٹیرف بڑھا کر 145 فیصد کر دیا ہے۔ پامیلا کوک نے کہا کہ میکسیکو نے اپنی برآمدی اشیا کا رخ امریکہ، چین، یورپ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک جیسی اپنی روایتی منڈیوں سے ہٹا کر کینیڈا، برازیل اور کسی حد تک ہندوستان کی جانب موڑ دیا ہے جو اس کے لیے قدرے فائدہ مند ہے۔ دیگر ممالک بھی میکسیکو کی تقلید کر رہے ہیں جن میں ویت نام بھی شامل ہے جس کی برآمدات اب امریکہ، میکسیکو اور چین سے ہٹ کر یورپی یونین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کی جانب جا رہی ہیں۔
پامیلا کوک ہیملٹن نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف کے اطلاق کو 90 روز تک روکے جانے سے عالمی تجارت کو فائدہ نہیں ہو گا اور اس وقفے سے لازمی استحکام کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ موجودہ حالات میں مستقبل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ غیرمتوقع صورتحال اس وقت لیے جانے والے تجارتی فیصلوں کو منفی طور سے متاثر کرے گی۔ دنیا کے معاشی نظام کو پہلے بھی ایسے حالات کا سامنا ہو چکا ہے۔ گزشتہ 50 برس میں متعدد مواقع پر دنیا اس سے ملتے جلتے حالات سے گزر چکی ہے تاہم اس مرتبہ صورتحال قدرے زیادہ سخت اور متزلزل ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔