سبق جو عمر بھر ساتھ رہے، میرے استادوں کے انمول نقوش...عمران اے ایم خان
میری زندگی میں میرے اساتذہ نے جو نقوش چھوڑے، وہ آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ کچھ سیکھنے کے انداز اور مثالیں اتنی موثر تھیں کہ برسوں بعد بھی ذہن میں تازہ ہیں

میرے استادوں نے جو نقوش میری زندگی پر چھوڑے، وہ محض تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ شخصیت سازی کا حصہ بن گئے۔ ان کی دی ہوئی سادہ مثالیں، گہری نصیحتیں اور روزمرہ کے تجربات آج بھی میری سوچ میں زندہ ہیں۔ تیسری جماعت میں ہمارے اسکول کے پرنسپل نے زمین کے اندر کوئلہ بننے کا عمل اتنے دلچسپ اور سادہ انداز میں سمجھایا تھا کہ وہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے، حالانکہ اس عمر میں اتنی پیچیدہ معلومات کو یاد رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
آٹھویں جماعت میں ہندی کے ایک استاد نے بزرگوں کی عزت کا سبق دیتے ہوئے کہا تھا، ’’بچو! چاہے تم صحیح ہی کیوں نہ ہو، بڑوں کی بات نہ کاٹو۔ اگر اپنی بات رکھنی بھی ہو تو انکساری سے یوں کہنا، ’’مجھے تو یہی معلوم ہے یا استاد نے ایسا ہی پڑھایا ہے لیکن آپ کہتے ہیں تو آپ ہی صحیح ہوں گے۔‘‘ یہ جملہ عمر بھر کے لیے میرے دل و دماغ میں عاجزی اور ادب کا چراغ بن گیا۔
دسویں جماعت میں سائنس کے استاد نے مرکزِ ثقل سمجھانے کے لیے ایک منفرد تجربہ کیا۔ انہوں نے ایک ہم جماعت کو ڈیسک پر کھڑا کیا، اس کے پیٹ پر کپڑے سے ٹارچ باندھی اور اسے ایک جانب جھکنے کو کہا۔ جیسے ہی وہ جھکتا، ٹارچ بھی ایک جانب لٹکنے لگتی۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’دیکھو! یہی ہے مرکزِ ثقل کا اثر، جو ہمیں نظر نہیں آتا، مگر ہوتا ضرور ہے۔ اس کی وجہ سے ہی انسان پہاڑ پر چڑھتے ہوئے آگے کی طرف جھک جاتا ہے اور بھوسے سے بھری گاڑیوں کے پلٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ یہ عملی تجربہ اس قدر موثر تھا کہ آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔
بارہویں جماعت میں انگریزی کے ایک استاد نے معمولی غلطیوں کے بڑے اثرات سمجھاتے ہوئے بلیک بورڈ پر اردو میں ’خدا‘ لکھا اور نقطہ اوپر سے نیچے کر کے اسے ’جدا‘ کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا، ’’دیکھو! ایک معمولی نقطے نے خدا سے جدا کر دیا! اس لیے یاد رکھوں کہ بعض اوقات چھوٹی غلطی بھی کتنی بھاری پڑتی ہے۔‘‘ یہ مثال حیرت انگیز تھی کیونکہ وہ استاد غیر مسلم تھے اور انگریزی پڑھاتے تھے، مگر پھر بھی انہوں نے اردو کی مثال پیش کی۔ انہی استاد نے ایک بار یہ شعر بھی سنایا تھا، ’گماں ہوا جو گل کو اپنے رنگ و بو کا ہوا نے مارا تھپڑ، شبنم نے منہ پے تھوکا۔‘ اس کے ذریعے انہوں نے سمجھایا تھا کہ تکبر کرنے والے بالآخر ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔
انگریزی کے ہی استاد نے زندگی کا ایک اور سبق دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’کسی کے پیچھے مت بھاگو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘ انہوں نے پرچھائی کی مثال دیتے ہوئے سمجھایا، ’’چاہے پرچھائی کے پیچھے کتنا بھی بھاگو، وہ آپ کے آگے ہی رہے گی لیکن جیسے ہی منہ پھیر کر چلو اور پیچھے مڑ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ پرچھائی آپ کے پیچھے پیچھے آ رہی ہے!‘‘ یہ مثال زندگی میں خود اعتمادی، عزت نفس سے سمجھوتہ نہ کرنا اور مقصد پر فوکس رکھنے کا سبق تھی، جو ہمیشہ یاد رہی۔
بارہویں جماعت میں فزکس کے ایک استاد جگراج سنگھ نے ایک دلچسپ سبق دیا تھا۔ طلبہ کی جانب سے ان کا نام بگاڑنے پر پہلے وہ ناراض ہوئے، پھر ہنستے ہوئے بولے، ’’ہم بھی اپنے استاد کا نام بگاڑا کرتے تھے۔ وہ دیکھنے میں ایسے تھے کہ ہم انہیں یونانی حرف ’ٹھیٹا‘ بلاتے تھے لیکن تم تو مجھے سامنے ہی جگّو کہہ رہے ہو!‘‘ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دے گیا کہ استادوں کا احترام ضروری ہے، چاہے ہم کتنے ہی شرارتی کیوں نہ ہوں اور اسکول جیسے ماحول میں ہمیں کس طرح پیش آنا چاہئے یہ بھی درس ملا۔ انہی استاد نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا، "ابھی صرف اور صرف اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور کسی طرح کے مشغلہ میں نہ پڑیں۔‘‘ پھر ذرا مسکراتے ہوئے بولے، ’’تم کسی بھی پس منظر سے ہو، کامیاب ہو جاؤ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایک سے ایک بہتر رشتوں کی لائن لگا دوں گا۔ ابھی ذرا سا صبر کر لو!‘‘ یہ الفاظ سن کر پوری کلاس میں قہقہہ گونجا، مگر ان کا پیغام ہمیشہ یاد رہا، ’’پہلے کامیاب بنو، پھر تمہیں سب کچھ مل سکتا ہے۔‘‘
بی ایس سی کے دوران کیمسٹری کے ایک استاد نے مجھے ایک اور انمول سبق دیا۔ وہ ہیملاک (دھتورے) کے زہر کے بارے میں پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’اے مین کازز ٹو ڈیتھ اف ہی ٹیک اے سمال اماؤنٹ آف ہیملاک۔‘‘ یعنی دھتورے کی تھوڑی سی مقدار لینے پر بھی آدمی کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ سنتے ہی میں کھڑا ہو گیا اور معصومیت سے کہا، ’’سر! کیا ہیملاک کا اثر خواتین پر نہیں ہوتا؟‘‘ استاد نے حیران ہو کر پوچھا، ’’ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’کیونکہ آپ نے اے مین (آدمی) کہا ، وومین (خاتون) نہیں!‘‘ استاد صاحب مسکرا دیے اور فوراً اعلان کیا، ’’سب لوگ اپنے نوٹس میں ‘اے مین‘ کی جگہ ’اے پرسن‘ درج کر لیں۔‘‘ اسی کے ساتھ انہوں نے اپنے نوٹس میں بھی ترمیم کرتے ہوئے کہا ، ’’واقعی، تم نے بالکل صحیح نکتہ اٹھایا، مجھے اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔‘‘ یہ لمحہ میرے لیے ایک بڑی سیکھ تھی کہ اتنے تجربہ کار استاد ہونے کے باوجود انہوں نے نہ صرف میری بات رکھی بلکہ اپنی غلطی بھی فوراً درست کر لی۔
وقت گزرتا رہا، جماعتی تعلیم سے نکل میں مقابلہ کے امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران ایک استاد نے کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا، ’’یو پی ایس سی جیسے مقابلہ کے سخت امتحان میں کامیابی کے لیے کیا پڑھنا ہے، اس سے زیادہ سیکھنا ضروری ہے کہ کیا چھوڑ دینا ہے۱‘‘ انہوں نے میرے بارہا سوال کرنے کی عادت پر یہ نصیحت دی تھی۔ میں کسی موضوع کے ہر زاویے پر غور کرنے سے قبل آگے نہیں بڑھ پاتا تھا اور میری یہ عادت کافی پرانی ہے جو آج تک برقرار ہے۔ اس کی وجہ سے میں مختلف موضوعات کا ماہر تو بن گیا لیکن مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے جس فوکس کی ضرورت تھی وہ حاصل نہ ہو سکا۔ لیکن یہاں ناکامی نے بھی مجھے درس دیا۔ ان استاد کی نصیحت کی وجہ سے میں خود کو بہتر طریقہ سے سمجھ پایا اور میں نے امتحان ہی نہیں دیا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میرا نام عمران خان ہونے کی وجہ سے تقریباً ہر پریکٹیکل کے وائیوا میں پہلا سوال یہی پوچھا جاتا تھا، ’’اچھا تو آپ کا نام عمران خان ہے! جانتے ہو عمران خان کیوں مشہور ہیں؟ یا ان کا ریکارڈ کیا ہے؟‘‘ ان کا اشارہ معروف کرکٹ عمران خان کی طرف ہوتا تھا۔ یہ سوال بار بار ہونے لگا تو میں نے سبق سیکھا کہ نام کے معنی اور کسی معروف شخصیت سے مطابقت کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں نے عمران خان کے ریکارڈ اور کامیابیوں کو باقاعدہ یاد کر لیا تاکہ ہر بار اعتماد کے ساتھ جواب دے سکوں۔
میرے اردو اور قرآن کریم کے استاد نے ایک بار دین کے معاملے میں دلیل دینے سے روکتے ہوئے کہا، ’’بیٹا! دین میں بحث نہیں، یقین رکھا جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث نے جو بتا دیا، بس اسی پر عقیدہ رکھو۔‘‘ یہ جملہ ایمان کے معاملے میں سیدھا اور مضبوط راستہ اپنانے کا سبق تھا۔
لیکن اگر کوئی میرے سب سے بڑے استاد تھے تو وہ میرے والد تھے۔ اسکول میں جب بھی کوئی نئی بات سیکھتا، گھر آ کر والد صاحب کو بتاتا۔ وہ اتنے آسان اور سادہ انداز میں سمجھاتے کہ بات فوراً ذہن نشین ہو جاتی۔ والد صاحب ہمیشہ اپنے ذاتی تجربات سے بھی ہمیں سکھاتے تھے۔ انہوں نے ایک بار بتایا تھا، ’’جب انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو کچھ دن بعد میرے امتحان میں اسی موضوع پر مضمون آیا تھا۔‘‘ انہوں نے فخر سے کہا، ’’میں نے وہی موضوع چنا، کیونکہ میں نے ریڈیو پر بی بی سی کے ذریعے اپالو مشن کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔‘‘ بعد میں استاد نے انہیں بلا کر شاباشی دی تھی اور کہا تھا کہ تم نے حالاتِ حاضرہ پر بہترین مضمون لکھا ہے!‘‘ اس سے مجھے یہ درس ملا کہ ہمیں ملک اور دنیا میں رونما ہو رہے واقعات پر نظر رکھنی چاہئے۔ یہ بات اور ہے کہ میری اعلیٰ تعلیم کے دوران والد صاحب اب مجھ سے نئی باتیں سیکھنے لگے تھے۔ میں انہیں تازہ ترین معلومات بتاتا اور وہ تجسس سے سنتے اور سوالات کرتے جاتے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ والد صاحب جو میرے استاد تھے، بعد میں میرے شاگرد بن گئے تھے!
آج جب میں اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں سیکھے ہوئے اسباق کو عملی طور پر آگے منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تو ان استادوں کی جھلک اپنے روزمرہ رویّے، الفاظ اور سوچ میں محسوس کرتا ہوں۔ ان کی دی ہوئی نصیحتیں اور مثالیں ہمیشہ میرے ذہن میں زندہ رہتی ہیں، جو میری شخصیت کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کی وہ باتیں، جو کبھی میری سمجھ سے باہر تھیں، آج میرے اپنے تجربات میں جڑ چکی ہیں اور ہر دن ایک نئے سبق کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔