مندر-مسجد کرنے والے نفرت پھیلانے کے لیے تاریخ کا غلط استعمال کر رہے... بھرت ڈوگرا

جہانگیر اور شاہجہاں کے دور کے کئی ایسے دستاویز بھی ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ورنداون اور متھرا کے مندروں میں پیدا چھوٹے چھوٹے مسائل کا نمٹارا مغل حکمراں کرتے تھے۔

گیان واپی مسجد/تصویر آئی اے این ایس
گیان واپی مسجد/تصویر آئی اے این ایس
user

بھرت ڈوگرا

ہندوستان میں مندر-مسجد تنازعہ بھڑکانے والوں اور فرقہ واریت کی تشہیر کرنے والوں سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ آپ تاریخ کی ان کئی سچائیوں کے بارے میں کیوں خاموش ہو جاتے ہیں، جن سے بھائی چارے اور صبر کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ کیا یہ لوگ تاریخ کا مطالعہ صرف نفرت پھیلانے کی مثالیں تلاش کرنے کے لیے کرتے ہیں؟ اگر تاریخ کو غیر جانبدار طریقے سے پڑھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ دورِ وسطیٰ کے ہندوستان میں کئی ہندو تیرتھ مقامات کو مسلم حکمراں کا تحفظ اور امداد حاصل ہوا۔ ان تیرتھ مقامات کی ترقی میں اس امداد کا اہم تعاون حاصل تھا۔ ان میں متھرا-ورنداون، ایودھیا، چترکوٹ سمیت کئی اہم ہندو مذہبی مقامات شامل ہیں۔

متھرا-ورنداون علاقہ: اس علاقے کے تقریباً 35 مندروں کے لیے مغل حکمراں اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں سے مدد ملتی رہی۔ اس کے دستاویز آج تک دستیاب ہیں۔ تقریباً 1000 بیگھہ زمین کا انتظام ان مندروں کے لیے کیا گیا تھا۔ ان دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان مندروں کے طرح طرح کے مسائل کا حل نکالنے میں مغل حکمرانوں اور ان کے افسران نے بہت دلچسپی دکھائی۔


ورنداون اور متھرا کے مندروں سے مغل حکمراں کے قریبی تعلقات کے بارے میں یہاں کے مندروں سے کئی اہم دستاویزات حاصل ہوئے ہیں۔ ایسے 50 سے زائد دستاویزوں کی بنیاد پر دو مشہور مورخین تاراپد مکرجی اور عرفان حبیب نے اپنے ایک مطالعہ میں بتایا ہے کہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں نے نہ صرف ان مندروں کی مدد کے لیے بہت ساری زمین دی تھی بلکہ مندروں کے مینجمنٹ میں پیدا جھگڑوں کو سلجھانے میں، مندروں کے ٹھیک رکھ رکھاؤ میں اور مندروں کے خادموں کے مسائل کو سلجھانے میں ان کی اور ان کےا فسران کا اہم کردار رہتا تھا۔

متھرا علاقہ میں مندروں اور مندروں کے خادموں کے لیے مغل ریاست کی طرف سے دی جانے والی مدد کو منظم کرنے کے لیے بادشاہ اکبر نے کئی فرمان جاری کیے۔ پہلی بار 27 اگست 1598 کو اور دوسری بار 11 ستمبر 1598 کو۔ ان فرمانوں کے ذریعہ ورنداون، متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقے کے 35 مندروں کے لیے 1000 بیگھہ زمین کا انتظام کیا گیا۔ جہانگیر نے اس امداد کو جاری رکھا۔ کچھ مندروں کے بارے میں امداد کے انتظام کو اس نے مزید پختہ کر دیا۔ دو نئے مندروں کے امداد کا انتظام اس نے کیا۔ اس کے علاوہ نجی سطح پر اس علاقے کے کئی مذہبی اشخاص کی امداد کے لیے بھی جہانگیر نے الگ سے 121 بیگھہ زمین کا انتظام کیا۔


مندروں کے پجاریوں، منتظمین وغیرہ میں وقت وقت پر تنازعہ بھی پیدا ہو جاتے تھے۔ اس حالت میں عموماً وہ مغل حکمراں یا افسران کے پاس جھگڑے کے اطمینان بخش حل کے لیے جاتے تھے اور ان کے فیصلے کو مانتے بھی تھے۔ مندروں کے آس پاس کی ہریالی ختم ہونے لگے یا پانی کی تنگی ہو جائے تو اس کے لیے بھی شکایت کی جاتی تھی اور اس کی سماعت بھی ہوتی تھی۔

ایودھیا: اودھ کے نوابوں اور ان کے افسران نے ایودھیا میں کئی مندر بنوائے، ان کی مرمت کروائی اور ان کے لیے زمین عطیہ کی۔ نواب صفدر جنگ نے ایودھیا میں ہنومان گڑھی پر مندر بنانے کے لیے زمین دی۔ آصف الدولہ کے دیوان نے بھی اس مندر کے لیے امداد دی۔

چترکوٹ: ایک مغل حکمراں نے چترکوٹ میں بالاجی کے مندر کے لیے 330 بیگھہ ٹیکس فری زمین کا انتظام کیا جس کے دستاویز اب تک مندر میں موجود ہیں۔ اسی طرح کے دستاویزات پریاگ، وارانسی، اجین اور گواہاٹی کے مندروں سے بھی ملے ہیں۔


میسور: ٹیپو سلطان نے اپنے علاقہ میں کئی مندروں کو کھلے دن سے عطیہ کیا۔ ٹیپو سلطان کے محلوں کے پاس ہی وینکٹ رمن، شرینواس اور شری رنگناتھ کو وقف مندر بنے ہوئے ہیں۔

جہانگیر اور شاہجہاں کے دور کے ایسے دستاویزات بھی ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ورنداون اور متھرا کے مندروں میں چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں وہاں کے پجاری فوراً مغل حکمراں سے شکایت کرتے تھے اور انھیں انصاف بھی ملتا تھا۔

فرقہ وارانہ تنظیم یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلم حکمراں ہندو مذہب اور ثقافت سے دور رہے۔ شاید انھوں نے کشمیر کے راجہ زین العابدین یا بڈ شاہ کا نام نہیں سنا جو عوامی طور پر ہندو تہواروں میں شامل ہوئے اور جنھوں نے کئی مندر بنوائے۔ انھوں نے دکن کے راجہ ابراہیم عادل شاہ دوئم کا نام نہیں سنا جنھوں نے اپنے گیتوں میں کئی بار سرسوتی کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے دکن کے ہی ایک دیگر راجہ علی عادل شاہ کا نام بھی نہیں سنا جنھوں نے بہترین لائبریری قائم کی اور اس میں سنسکرت کے مشہور عالم پنڈت وامن پنڈت کو تقرر کیا۔


اصل بات یہ ہے کہ سبھی طبقات ایک دوسرے کے مذہبی مقامات کا بھی احترام کریں۔ اپنے مذہبی مقامات کو صفائی، خوبصورتی، فنکاری اور ماحولیاتی تحفظ کے نظریہ سے سنوارا جائے اور دوسروں کے مذہبی مقامات کا احترام کیا جائے تو اس میں سبھی مذاہب کی بھلائی ہے اور قومی اتحاد کی بھی مضبوطی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔