عالمی آواز-7: یہ سال 2020 ہے، اس میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جوکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا... سید خرم رضا

دوسرے مباحثہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’ہندوستان کو دیکھو، کتنا گندہ ہے‘ اس ملک کےلئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے جس کو آپ اپنا دوست کہتے ہیں۔

تصویر Getty Images
تصویر Getty Images
user

سید خرم رضا

دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک تصور کئے جانے والے امریکہ میں 3 نومبر کو صدارتی انتخابات ہونےہیں۔ کیونکہ یہ امریکہ کےانتخابات ہیں اس لئے پوری دنیا کی نظریں اس پر ہیں اور اسی لئے دونوں صدارتی امیدواروں کے بیان، پالیسیوں اور ماضی کا پوسٹ مارٹم جاری ہے۔ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کو جاننے کے لئے ان کے مابین مباحثہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے ’ٹاؤن ہال‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2020 کے صدارتی انتخابات کے لئے ہوا پہلا ٹاؤن ہال مباحثہ صدر ٹرمپ کے رویہ کی وجہ سے انتہائی خراب اور مایوس کن ثابت ہوا تھا لیکن دوسرا مباحثہ کافی بہتر تھا اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو ہرسروے میں اپنے حریف بائڈن سے پیچھے ہیں، اس مباحثہ میں ان کا رویہ کافی مہذب تھا۔

دوسرے مباحثہ میں دونوں امیدواروں نے اپنی سوچ،نظریہ اور پالیسی کو موثر انداز میں پیش کر کے اپنے حامیوں اور امریکی رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔ بائڈن جو سابق امریکی صدر براک اوبامہ کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں نائب صدر تھے ان سے ٹرمپ نےبار بار یہ پوچھا کہ وہ جو آج کہہ رہے ہیں اس پر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں عمل کیوں نہیں کیا ؟بائڈن نہ صرف اپنی بات موثر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انہوں نے آخر میں تمام امریکیوں کوساتھ لے کر چلنے کی جو بات کہی اس نے امریکی ووٹروں کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔


سی این این نے اس مباحثہ کے بعد جو امریکی ووٹرس کی رائے جاننے کے لئے سروے کیا اس میں جہاں بائڈن کو ہر شعبہ میں فیصلہ کن سبقت نظر آ ئی وہیں کئی پہلو ان کے لئے تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس سروے سے ایک بات تو صاف ہے کہ بائڈن کو سبقت ضرور ہے لیکن پہلے مباحثہ کے مقابلہ اس مباحثہ میں ٹرمپ کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔اس سروے میں بائڈن کےحق میں 53 فیصد رائے ہیں تو ٹرمپ کے حامیوں کی تعداد 39 فیصد ہے۔یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے مباحثہ میں بائڈن کے حق میں رائے 60 فیصد تھی اور ٹرمپ کےحق میں صرف 29 فیصد تھی۔ یعنی ٹرمپ کے حق میں رائےدینے والوں کی تعداد میں دس فیصد کا اضافہ ہوا ہےاور بائڈن کے حق میں یہ رائے اب 60 فیصد سے کم ہو کر 53 فیصد نظر آئی۔

ان سروے میں جہاں دوسرے مباحثہ میں ٹرمپ کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے وہیں معیشت کو مستحکم کرنے کے معاملہ میں لوگوں کی رائے میں ٹرمپ بائڈن سے بہتر ہیں۔ 56 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے میں ٹرمپ زیادہ موثر ہیں جبکہ 44 فیصد کی رائے میں بائڈن بہتر ہیں۔ اس کے علاوہ سروے کا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ یہ ہے کہ جب سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ بائڈن اور ٹرمپ میں کون زیادہ مضبوط قائد ہے تو دونوں کے حق میں 49 فیصد لوگوں کی رائے تھی۔ تمام سروے اور مباحثوں میں بائڈن ٹرمپ سے کافی زیادہ آگے نظر آرہے ہیں لیکن معیشت کو استحکام دینے اور مضبوط قائد کے سوال پر ٹرمپ اپنے حریف بائڈن سے آگے نظر آرہے ہیں۔یہ پہلو بائڈن کی پارٹی ڈیموکریٹس کے لئے اچھا نہیں ہے اور صدرٹرمپ کے لئے خوش کن ہے۔


سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ اور بائڈن کے جوابات سننے کے بعد اور دونوں قائدین کے ماضی کو دیکھنے کے بعد امریکی عوام کو بائڈن کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے لیکن پارٹی بنیاد پر تقسیم عوام سے زیادہ امیدیں نہیں رکھی جا سکتیں۔ امریکہ کا شمار دنیا کے طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن کورونا وبا کے جو فعال معاملات کی تعداد ہے اور اس وبا سے ہونے والی اموات کی جو تعداد ہے اس نے امریکہ کے کئی دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ خود امریکی صدر کا اپنا رویہ، ماسک نہ پہننا، اس وبا کے ماہر ڈاکٹر فاکی کے لئے خراب زبان کااستعمال کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ٹرمپ میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

دوسرے مباحثہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’ہندوستان کو دیکھو، کتنا گندہ ہے‘ اس ملک کے لئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے جس کو نہ صرف آپ اپنا دوست کہتے ہیں بلکہ اس دوست ملک کا وزیر اعظم امریکہ میں جا کر آپ کی وکالت کرتا ہے اور امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں سے کہتا ہے ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘۔ ٹرمپ کا آج کا بیان ہماری قیادت کے لئے سبق ہونا چاہئے اور ہمیں اگر اپنےملک کا وقار بنائے رکھنا ہے تو کسی قائد اور پارٹی کی ہمیں وکالت نہیں کرنی ہے۔ہمارے تعلقات ملک سے ہیں پارٹی یا قائد سے نہیں۔


ابھی تک آنے والے تمام سروے اور مباحثوں کے رجحانات اشارہ کر رہے ہیں کہ اکثریت ٹرمپ کے حق میں نہیں ہے اور بائڈ ن کو متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ خود بائڈن نے کہا ہے کہ وہ کوئی خدا نہیں ہیں لیکن متبادل ضرور ہیں۔دنیا کے لئے اور امریکہ کے لئے کون بہتر ہے یہ تو 3 نومبر کو امریکی رائے دہندگان اپنی رائے سے اظہار کر ہی دیں گے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سال 2020 ہے۔ اس سال میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔