سرکاری محکموں میں خالی عہدوں کی بڑی تعداد، پھر بھی حکومت نوجوانوں کو نہیں دے رہی روزگار، آئیے اعداد و شمار پر ڈالیں نظر

حکومت نے جولائی کے آخری ہفتے میں پارلیمنٹ میں اعتراف کیا کہ اس نے گزشتہ 8 سال کے دوران تقریباً 22 کروڑ درخواستیں حاصل کیں لیکن ان میں سے 7 لاکھ 22 ہزار 311 کو ہی سرکاری ملازمت دی گئی۔

دفتر، علامتی تصویر آئی اے این ایس
دفتر، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں سرکاری ملازمت پانا لاٹری لگنے سے کم نہیں ہے۔ مستقل آمدنی، کام کی سیکورٹی، وقار اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی سہولیات کی وجہ سے سرکاری ملازمت بیشتر لوگوں کی پسند ہوتی ہے۔ ان کے لیے تقریباً 160 امتحانات ہوتی ہیں اور تقریباً 7 کروڑ لوگ سالانہ ان میں شامل ہوتے ہیں لیکن قسمت کا تالا تو بمشکل ایک فیصد لوگوں کا ہی کھلتا ہے۔ ان داخلہ امتحانات میں بے ضابطگیاں بھی طرح طرح کی ہوتی ہیں۔ کبھی سوالنامہ لیک ہونے، کبھی ’منا بھائی‘ کے بیٹھنے کی تو کبھی زیادہ پیسے خرچ کرنے والے کی جھولی میں ملازمت آ جانے کی خبریں اکثر موضوعِ بحث بنتی ہیں۔ مغربی بنگال کے وزیر پارتھ چٹرجی کی حالیہ گرفتاری اسی سلسلے میں ہے۔ ان پر اساتذہ کی بھرتی میں بے ضابطگی کا الزام ہے۔

آبادی کے لحاظ سے گنتی کے لوگوں کو سرکاری ملازمت مل پاتی ہے لیکن تناسب کے نظریہ سے ان کی تنخواہ، بھتہ اور پنشن پر لوگوں سے وصولے گئے ٹیکس کا کہیں بڑا حصہ خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ایک تو سرکاری ملازمتیں بہت کم ہیں، دوسرے گزشتہ 30 سالوں میں ان کی تعداد موٹے طور پر وہی رہی ہے۔ 1984 کے بعد مرکزی ملازمتوں کی تعداد تقریباً یکساں رہی۔ اتنا ہی نہیں، حکومت نے پارلیمنٹ کو جو جانکاری دی ہے اس کے مطابق مارچ 2021 میں ان عہدوں میں تقریباً 30 فیصد خالی تھے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ان عہدوں کو اس لیے نہیں بھرا جا رہا کیونکہ حکومت کے پاس پیسے نہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔


مرکزی حکومت کا سالانہ بجٹ 15-2014 کے 17 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 22-2021 میں 34 لاکھ کروڑ ہو گیا ہے۔ اس لیے اس کی وجہ کچھ اور ہوگی۔ اسامیاں ہر جگہ ہیں۔ وزارت تعلیم نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ مرکزی یونیورسٹیوں میں 12 ہزار تو نوودے اسکولوں میں 3000 سے زیادہ اساتذہ کے عہدے خالی ہیں۔ محکمہ پرسونل نے جو اعداد و شمار دیے ہیں، اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ یو پی ایس سی نے 22-2021 میں مرکزی حکومت کی مختلف ملازمتوں کے لیے 4119 امیدواروں کی سفارش کی جو 10 سالوں میں سب سے کم ہے۔ 15-2014 میں یہ تعداد 8272 تھا۔ کم لوگوں کی بھرتی پر کوئی صفائی نہیں ہو سکتی کیونکہ ’جاب پرامڈ‘ کے دونوں سروں پر کمی ہے۔ مثال کے لیے ملک میں 1572 آئی اے ایس افسران کی کمی ہے۔ ان کی مجموعی منظور شدہ تعداد 6789 ہے جب کہ موجودہ تعداد 5317 ہے۔ ان میں بھی سیدھی بھرتی سے ملازمت پانے والوں کی تعداد 3862 اور پروموشن سے کیڈر پانے والوں کی 1455 ہے۔ 26 ریاستوں میں آئی اے ایس افسران کی کمی ہے۔ ایسے میں یو پی ایس سی کے ذریعہ کم بھرتی کرنے کا مطلب؟ اس حکومت میں سابق فوجیوں کو تقرر کرنے کا ریکارڈ بھی مایوس کن ہے۔

گروپ ڈی میں 20 فیصد، گروپ سی میں 14.5 فیصد اور گروپ اے اور گروپ بی کے عہدوں میں 10 فیصد کے بعد بھی جون 2021 میں سابق فوجیوں نے گروپ ڈی میں 0.0 فیصد، گروپ سی میں 0.47 فیصد، گروپ بی میں 0.8 فیصد اور گروپ اے میں 2.20 فیصد ملازمتیں پائیں۔ 2015 میں جہاں 10982 سابق فوجیوں کی بھرتی کی گئی، وہیں 2020 میں یہ نمبر 2584 اور 2021 میں 2983 رہا۔ ہر سال ایک کروڑ ملازمت پیدا کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ کی قیادت میں ٹاسک فورس کی تشکیل کی۔ روزگار پیدا ہوئے یا نہیں، یہ تو پتہ نہیں لیکن واجپئی نے 2003 میں اسی کام کے لیے ایک گروپ بنایا۔ تقریباً دس سال بعد نریندر مودی نے سالانہ ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کا وہی پرانا وعدہ دہرایا۔ آج ہم سال 2022 میں ہیں۔ مودی 8 سال سے وزیر اعظم ہیں اور انھوں نے ابھی جون میں اعلان کیا کہ مرکزی حکومت آئندہ ڈیڑھ سالوں میں 10 لاکھ لوگوں کو روزگار دے گی۔ مرکزی یا ریاستی حکومتیں اتنے لوگوں کو روزگار نہیں دے رہی ہیں جتنے کو دینی چاہئی تھیں۔ دراصل مرکزی حکومت میں منظور شدہ عہدہ 1984 جتنے ہی ہیں، یعنی 37.87 لاکھ رہے۔ 2014 میں منظور شدہ عہدوں کی تعداد 38.90 لاکھ تھی۔ ہندوستان کی آبادی 1981 میں 68 کروڑ سے بڑھ کر 2011 میں 121 کروڑ ہو گئی۔ اب تو 140 کروڑ کے آس پاس ہے۔ لیکن اثردار طریقے سے مرکزی حکومت کی ملازمتیں کم ہو گئی ہیں۔


مرکزی حکومت میں ملازمتوں کی شکل بھی بدل گئی ہے۔ 1957 میں ریلوے 57 فیصد ملازمتیں دیتا تھا، 2014 میں اس کا حصہ گھٹ کر 40 فیصد رہ گیا۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں وزارت داخلہ کی شراکت داری حقیقت میں 1957 میں 2.8 فیصد سے بڑھ کر 2014 میں 15 فیصد ہو گئی۔ چونکہ صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ اور نظامِ قانون ریاستوں کے سبجیکٹ ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ ریاستی حکومت کی ملازمتیں کہیں زیادہ ہوں گی۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 1984 کے بعد سے ان کی تعداد میں کوئی بڑی تبدیلی آئی۔ ریاستوں میں اساتذہ، ڈاکٹرس، ججوں اور پولسی اہلکاروں کی واضح طور سے کمی ہے لیکن وہ انھیں بڑی تعداد میں تقرر کرنے میں ناکام ہیں۔ ریاستی حکومتیں ان سبھی شعبوں سے پیچھے ہٹ رہی ہیں، یہاں تک کہ سیکورٹی بھی اب نجی سیکٹر کو آؤٹ سورس کر دی گئی ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور پرائیویٹ اسپتال غالباً ریاستی حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں کو روزگار دیتے ہیں۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ مرکزی وزارت برائے صحت و خاندانی فلاح بھی یہ بات مانتا ہے کہ سال 2021 میں دیہی شعبوں میں 21.8 فیصد صحت مراکز بغیر کسی ڈاکٹر، 27.2 فیصد بغیر نرس اور دائی کے اور 68 فیصد بغیر کسی ماہر ڈاکٹر کے تھے۔

حال یہ ہے کہ چاہے مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت، دونوں ہی سہولت کے حساب سے تقرریوں کو بھر کر مطمئن ہو جاتی ہیں، لیکن انھوں نے نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پانی، کھانا، صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ عوامی ٹرانسپورٹ... کسی جگہ ضرورت پوری نہیں ہو پا رہی ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ جو بھی وسائل دستیاب ہیں، ان کے لیے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں ریڈنگ روم، کمپیوٹر سنٹر، اوپن ایئر تھیٹر، لائبریری، صحت مراکز، کھیل سہولیات وغیرہ قائم کر کے لاکھوں روزگار پیدا کیے جا سکتے ہیں۔


اس طرح کی سہولیات پرائیویٹ سیکٹر نہیں بنائے گا کیونکہ ان کی دیکھ ریکھ پر اچھا خاصہ خرچ ہوگا اور اگر انھوں نے اس طرح کا کچھ بنا بھی دیا تو اس کے عوض میں موٹی رقم وصولیں گے۔ لیکن ہم یا تو مورتیوں اور مندروں کی تعمیر کو ہی سب سے ضروری مان بیٹھے ہیں، یا پھر چھ لین والی سڑک، بہترین ہوائی اڈے، میٹرو ریل، اسکلیٹر جیسی چمک دمک والی سہولیات بنانے میں لگے ہیں جن کا فائدہ خوشحال لوگوں کو ہی ملتا ہے اور بڑی آبادی کے لیے ان سب کا کوئی خاص مطلب نہیں۔ مجموعی آبادی میں خواتین کی شراکت داری تقریباً نصف ہے لیکن ملازمت و مزدوری میں ان کی شراکت داری بے حد کم ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین گریجویٹس کی تعداد زیادہ ہے لیکن خواتین کو کام چھوڑ دینا پڑتا ہے کیونکہ حفاظتی انتظامات کی کمی ہے اور اس کے ساتھ سستی، محفوظ اور آرام دہ عوامی ٹرانسپورٹیشن کی بھی سہولت نہیں ہے۔

(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام پر شائع اے جے پربل کے ہندی مضمون کا اردو ترجمہ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔