ارنب گوسوامی کے سامنے کئی سوال، کئی باتیں ہیں جو ملک جاننا چاہتا ہے

ممبئی میں اس طرح کی بات گشت کر رہی ہے کہ ارنب گوسوامی نے پولس کے سامنے تحریری معافی نامہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ کیا ہندوستانی عوام کو اس بارے میں جاننے کا حق نہیں ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

امولیہ نرونہا 21 سال کی طالبہ ہے۔ گزشتہ سات مہینے سے کرناٹک کی جیل میں ہے کیونکہ اس نے ایک عوامی پروگرام کے دوران مبینہ طور پر 'پاکستان زندہ باد-ہندوستان زندہ باد' کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن امولیہ سے کہیں تیز آواز میں چیخنے والے اور ان سے کہیں زیادہ نازیبا انداز میں بیان دینے والے ٹی وی نیوز اینکر ارنب گوسوامی کے حال فی الحال جیل جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ واقعی، ہم عجیب وقت میں جی رہے ہیں۔

14 اپریل کو جب لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر کے ہزاروں مہاجر مزدور ممبئی کے باندرا میں اکٹھا ہو کر انھیں گھر بھیجنے کا مطالبہ کرنے لگے تو ارنب جیسے اپنے حواس باختہ ہو گئے تھے اور کہہ رہے تھے "وہ کوئی بھوکے نہیں، وہ مزدور نہیں، یہ بھاڑے کے لوگ ہیں اور بڑی سازش کا حصہ ہیں... وہ ایک مسجد کے سامنے اکٹھا ہوئے... میں دہراتا ہوں، ایک مسجد کے سامنے... وہ چاہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن ناکام ہو جائے... یہ لاک ڈاؤن کے خلاف ایک سازش ہے۔"


لوگوں کو گمراہ کرنے کے الزام میں ممبئی پولس نے ٹریڈ یونین لیڈر ونے دوبے اور اے بی پی ماجھا ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے صحافی راہل کلکرنی کو گرفتار کر لیا تھا۔ ونے دوبے نے 13 اپریل کو فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالا تھا جس میں انھوں نے مزدوروں کو اگلے دن اکٹھا ہونے اور پھر انھیں گھر بھیجنے کے لیے فوری ٹرین کا انتظام کرنے کا مطالبہ کرنے کو کہا تھا۔ جب کہ کلکرنی نے ریلوے کے ایک انٹرنل لیٹر کے حوالے سے یہ خبر کی تھی کہ 16 اپریل سے ریلوے مسافر خدمات بحال کر سکتا ہے۔

پولس نے مانا کی اس کی رپورٹ کی وجہ سے مزدور گمراہ ہو گئے ہوں گے۔ دو دن کے اندر کلکرنی کو ضمانت پر رہائی مل گئی جب کہ ونے دوبے کو دو ہفتہ تک جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ایسا کر کے مہاراشٹر حکومت نے یہ پیغام دیا کہ فیک نیوز پھیلانے پر وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑے گی۔ حال ہی میں 12 گھنٹے تک ارنب گوسوامی سے ہوئی پوچھ تاچھ کا اثر یہ ہے کہ مہاراشٹر کی خبروں کو کور کرتے وقت ریپبلک ٹی وی اب ویسا جارح نظر نہیں آ رہا۔


باندرا کے واقعہ کے ایک ہفتہ بعد ہی بھگوا دھاری دو سادھوؤں کو بھیڑ پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی ہے۔ ارنب تب بھی جم کر چیخے تھے "ہندو سادھوؤں کو مار ڈالا جا رہا ہے... کیا ہندو اتنے کمزور ہیں... وہ اب تک خاموش کیوں ہیں؟" اس کے بعد وہ خاموش رہنے کے لیے لبرل اور 'موم بتی' گینگ کو نشانہ بناتے ہوئے جاوید اختر، سورا بھاسکر، انوراگ کشیپ سمیت تمام لوگوں کا نام لیتے ہیں، جنھوں نے سادھوؤں کے قتل پر مبینہ طور پر ہونٹ سل رکھے تھے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ان سبھی لوگوں نے قتل کی مذمت کی تھی۔ یا تو ارنب کی ریسرچ ٹیم بلا کی کمزور ہے یا انھیں ہدایت دی گئی ہے کہ اسے سوٹ نہ کرنے والے دلائل کو چھوڑ دیا کرے۔

اتنا ہی نہیں، وہ کانگریس کی کارگزار صدر سونیا گاندھی پر بھی برس پڑے اور کہہ دیا کہ "میں آپ کو بتاتا ہوں، وہ اب تک اٹلی رپورٹ بھیج چکی ہوں گی... انھوں نے رپورٹ بھیجی ہوگی کہ ایک ریاست جہاں ان کی پارٹی اقتدار میں ہے، وہاں دو سادھوؤں کو مار ڈالا گیا ہے...۔" یہ اپنے آپ میں ریسرچ کا موضوع ہے کہ ارنب کا ایسا کہنا 'نظریہ' ہے، 'خبر' ہے یا پھر 'تحقیقی صحافت'؟ اور اظہار رائے کی آزادی کیا انھیں اس طرح کے بیان دینے کی اجازت دیتی ہے اور کیا حکومت اور سپریم کورٹ دوسرے اینکروں کو بھی ایسی ہی سولت دیں گے؟


بہر حال، سونیا گاندھی کے خلاف اس طرح کے قابل اعتراض بیان پر تمام کانگریس لیڈر مشتعل ہو اٹھے اور ارنب کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے۔ کئی لوگوں نے ایف آئی آر درج کرائی جس میں سے ایک تھی مہاراشٹر کے وزیر توانائی نتن راؤت کے ذریعہ ناگپور میں درج کرائی گئی ایف آئی آر۔ سپریم کورٹ نے جانچ کے لیے کیس کو ورلی کے این ایم جوشی پولس اسٹیشن منتقل کر دیا۔

دوسری طرف گوسوامی سے پوچھ تاچھ کے خلاف مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس ایک نمائندہ وفد لے کر گورنر سے سے شکایت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اُدھر سپریم کورٹ فوراً معاملے کی سماعت کرتا ہے اور ارنب کو تین ہفتہ تک گرفتاری سے چھوٹ دے دیتا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی عدالت میں ارنب کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا موکل 'مفاد عامہ' میں سوال اٹھا رہا تھا۔


اگر یہی بات ہے تو کیا مکل روہتگی جیل میں بند 21 سالہ امولیہ کے معاملے میں 'مفاد عامہ' کو متعارف کریں گے؟ ویسے تو ارنب کے انداز میں پولس پوچھ تاچھ کو لے کر کسی طرح کا کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا لیکن ممبئی میں اس طرح کی خبر گرم ہے کہ انھوں نے پولس سے تحریری معافی نامہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ کیا ہندوستان کے لوگوں کو اس کے بارے میں جاننے کا حق نہیں ہے؟

ارنب اور ان کے ریپبلک ٹی وی کے بارے میں کچھ اور بھی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ملک جاننا چاہے گا۔ جس مشتبہ حالات میں وہ 'ٹائمز ناؤ' سے الگ ہوئے، اس کے بارے میں کبھی نہیں بتایا گیا۔ وہ چینل کے ساتھ دس سال سے تھے اور اس دوران وہ اپنے آپ میں ایک برانڈ ہو گئے تھے۔ 'ٹائمز ناؤ' سے الگ ہونے کے بعد ریکارڈ وقت میں ان کے چینل کو تمام طرح کی منظوری مل جاتی ہے جب کہ لائن میں لگے باقی لائن میں ہی رہ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے وینچر کو بی جے پی حکومت کا 'آشیرواد' حاصل تھا۔


یہ ہے صحافت کرنے کا ارنب کا طریقہ جس پر ممبئی-لکھنؤ پرواز کے دوران مزاحیہ اداکار کنال کامرا نے چٹکی لی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر برائے شہری ہوابازی ہردیپ پوری نے فرمان سنا دیا کہ کامرا کو چھ ماہ کے لیے نہ صرف انڈیگو بلکہ کسی بھی دوسری ائیر لائن، سرکاری ہو یا پرائیویٹ، سے سفر کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔ جب کہ کامرا کے خلاف کسی بھی مسافر نے کسی طرح کی عدم سہولت کی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ یہ ہے ارنب کا حکومت میں رتبہ۔

خاندان پرستی کے خلاف علم بلند کرنے والے ارنب خود ایک سیاسی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دادا، والد اور چچا کے بی جے پی سے قریبی رشتے رہے ہیں۔ ان میں سے دو تو رکن اسمبلی بھی رہے ہیں۔ گزشتہ تین سال کے دوران ان کی قسمت کا دروازہ جس طرح کھلا ہے، وہ حیران کر دینے والا ہے۔ ہندوستان واقعی ان کی اس زبردست چھلانگ کا راز جاننا چاہے گا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کرنے پر ان کا نیٹ ورتھ کہیں 380 کروڑ تو کہیں 1000 کروڑ نظر آتا ہے۔ کون درست ہے، پتہ نہیں۔ لیکن ممبئی میں اس بات کو لے کر بازار گرم ہے کہ اپنی کمپنی کے 80 فیصد شیئر چندرشیکھر سے خریدنے کے لیے ارنب کے پاس اتنے پیسے آئے کہاں سے۔ کیا ملک یہ نہیں جاننا چاہے گا؟


ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے ارنب ان کی بوریت کو دور کرنے کا ذریعہ ہو، لیکن زیادہ تر لوگوں کا تو یہی ماننا ہے کہ انھوں نے صحافت اور ملک کے ڈھانچے کو گہرا نقصان پہنچایا ہے۔ اگر فریق استغاثہ چالاکی سے کام کرے تو ان تین ہفتوں کا استعمال ارنب کے پرانے پروگراموں کو چھان کر ان کے لیے مشکلیں کھڑی کر سکتا ہے۔ ویسے یہ ضروری نہیں کہ انھیں جیل بھیج کر ہیرو ہی بنایا جائے۔ ان پر قرطاس ابیض (وہائٹ پیپر) لانا ہی کافی ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 May 2020, 8:40 PM