رحم و انصاف سے محروم ہوتی سیاست
مضمون میں اقتدار کے بے رحم رویے، انسانی ہمدردی کے فقدان اور عوام کی مشکلات پر بے حسی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کی بے رحمی، جھوٹے وعدے اور عوامی استحصال اس کا مرکزی موضوع ہیں

علامتی تصویر
گوسوامی تلسی داس رام چرت مانس میں دیا یعنی رحم کو دھرم کی جڑ بتا گئے ہیں۔ فطری طور پر رام چرت کے بہت سے عقیدت مند رحم ہی کو دھرم مانتے ہیں۔ اگر کوئی حد سے زیادہ تنگ دل یا سنگ دل ہو جائے تو اسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ بھائی، کچھ تو رحم کر، کچھ تو دیا دھرم رکھ۔
لیکن یہاں دھرم کی تجارت کرنے والے کئی عظیم المرتبت حضرات کا (ان کے نام لینے کی بھلا کیا ضرورت، پڑھ کر آپ سمجھ ہی جائیں گے کہ اشارہ کس کی طرف ہے)، بلکہ ان کی پوری جماعت کا نہ رحم سے کوئی واسطہ دکھتا ہے، نہ دھرم سے۔ ہاں، دیا دھرم سے بھی نہیں۔
شرم و لحاظ تو وہ تبھی چھوڑ بیٹھے تھے جب چیختے چلاتے، ’اب بھی جس کا خون نہ کھولا...‘ جیسے نعرے لگاتے، دھمکاتے، بھڑکاتے اور اکساتے پھر رہے تھے لیکن تب دکھاوے کے لیے ہی سہی، دیا دھرم کا کچھ بھرم قائم رکھتے تھے۔ اب اس سے بھی ناطہ توڑ بیٹھے ہیں۔ ایسے اکڑے ہیں کہ ان میں رحم کا خیال تک نہیں آتا۔ اس لیے کوئی اپنا ہو یا پرایا، اور اس کی کتنی ہی بدحالی ہو رہی ہو، انہیں اس سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ وہ اگر ہمدردی مانگنے لگے تو الٹا اس پر برسنے اور اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگتے ہیں۔
سنتے تو بہت پہلے سے آئے ہیں کہ اقتدار آہستہ آہستہ تمام انسانی اوصاف کو ختم کر دیتا ہے، مگر پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ یہ بہت سے لوگوں کو انسان ہی نہیں رہنے دیتا۔ کچھ اور بنا ڈالتا ہے۔
پھر تو کوئی ملک میں اپنی گزر بسر نہ دیکھ کر گھر بار یا کھیت وغیرہ بیچ کر یا قرض لے کر جیسے تیسے سات سمندر پار چلا جائے، ہاں ہاں، امریکہ، یہ سوچ کر کہ وہاں ہڈیاں توڑنے سے شاید اس کے حالات بدل جائیں، لیکن وہاں نئے جال میں "پھنس" جائے، اسے اجنبی کہہ کر دھتکار دیا جائے، ہتھکڑی، بیڑی اور زنجیر میں جکڑ کر واپس بھیج دیا جائے، تو بھی انسان کے بھیس میں گھومنے والے یہ غیر انسانی مخلوق ترس نہیں کھاتے۔ یہ سوچ کر بھی نہیں کہ انہی جیسے لوگوں کی بدولت ان کے بھائی بندھ تخت پر بیٹھے ہیں۔ انہی کی اکڑ، فرض ناشناسی اور وعدہ خلافیوں کے سبب اس کا یہ حال ہوا ہے کہ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کرے تو کیا کرے۔ بیچارہ ملک میں بھی ’مودی مودی‘ کر کے تھک گیا ہے اور پردیس میں بھی۔ کیا حیرت کہ ایسے میں اسے تلسی داس کے زمانے کی تکرار ہوتی نظر آتی ہے، جب ’جیون گزارنے کے وسائل نہ رکھنے والے لوگ سوچ و فکر میں ڈوبے ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کہاں جائیں، کیا کریں؟‘
وجے مالیہ اور نیرو مودی کی قسم، وہ اس ستم ظریفی کو دیکھتا ہے تو اس کا بچا کھچا چین بھی چھننے لگتا ہے کہ ایک طرف وہ انہیں ملک واپس نہیں لا پا رہے، تو دوسری طرف بے شمار ارب پتیوں کو بھی یہ ملک رہنے لائق نہیں لگتا۔ وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، اور دوسری طرف اس جیسے بے بس لوگ بھی بیرون ملک جانے کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ کئی بار ان کو ووٹ دے چکا ہے جنہوں نے پندرہ لاکھ کے سبز باغ دکھائے تھے۔
وہ دیکھتا ہے کہ سبز باغ دکھانے والوں نے بے شرمی کو بے رحمی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے، تو سوچتا ہے، کون جانے، وہ اسے بھی اپنا "وکاس" (ترقی) کہتے ہوں، جیسے پکوڑے تلنے کو...! اور سمجھ نہ پا رہے ہوں کہ ایسے "وکاس" کے گھوڑے پر سوار ہو کر رحم دھرم کا لحاظ کیسے کریں؟ بقول تلسی داس: دو مخالف چیزیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، ٹھٹھا کر کے ہنسنا اور منہ پھلانا ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتا۔
بہرحال، سنا ہے کہ پچھلے دنوں امرتسر میں امریکی فوج کے جہاز سے اترا ایک شخص ایک اور آدمی کو ساتھ لے کر ان ’عظیم المرتبت‘ کی خدمت میں پہنچا۔ ملاقات کیا، فریاد کرنے۔ بتانے کہ بس جانا، دھتکارا جانا اور واپس بھیج دیا جانا ہی اس کے حصے میں آیا۔ اور کچھ بچا ہی نہیں۔ ساری جمع پونجی ختم ہو گئی۔ پہلے دلالوں نے مارا، پھر ’ان کے دوست‘ نے۔
تب تک اس کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں لیکن اس کے بدن پر ان کے رگڑ کے نشانات باقی تھے۔ وہ انہیں ’عظیم المرتبت‘ کو دکھانا چاہتا تھا۔ کون جانے، ملک کا ڈنکا بجانے کا ان کا جو مسلسل دعویٰ ہے، وہ انہیں یاد آ جائے اور ان پر کچھ رحم آ جائے لیکن جیسے ہی اس نے اپنے کپڑے ہٹانے چاہے، وہ بھڑک پڑے، ’رہنے بھی دو اب۔ کٹا تو آئے ہو ملک کی ناک۔ کیا سوچا تھا، وہاں تمہاری آرتی اتاری جائے گی؟ تمہاری پوجا کی جائے گی؟‘
ان کے اس رویے کی تو اس نے توقع بھی نہیں کی تھی! اس لیے کہ اس نے کچھ قوانین ضرور توڑے تھے، مگر کوئی دھرم کرم نہیں کہ ان کا ’ملکی فخر‘ مجروح ہو جائے! خاص طور پر جب وہ ان کے بار بار گھٹنے ٹیکنے سے بھی مجروح نہیں ہوتا۔
سو وہ تھوڑا ترکی بہ ترکی بولا، ’اتاری جاتی حضور۔ ضرور اتاری جاتی آرتی۔ پوجا بھی کی جاتی۔ بشرطیکہ آپ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے سامنے گڑگڑانے اور ان کی آرتی اتارنے سے بچا کچھ وقت اپنے شہریوں یا جنہیں آپ شہری نہیں سمجھتے، ان ’گنواروں‘ کی حالت سدھارنے میں لگاتے۔ تب ہم گنوار پہاڑ، سمندر اور کھائیاں پھلانگ کر اجنبی کہلانے وہاں جاتے ہی کیوں؟
اس کی یہ ’گستاخی‘ کرنا تھا کہ وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ چلّا کر بولے، ’بس، بہت ہوا۔ چپ ہو جا اب۔ آگے ایک بھی لفظ بولا تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم نے ملک میں اتنی جیلیں کیوں بنا رکھی ہیں!‘
ساتھ آیا آدمی بغیر کچھ کہے سمجھ گیا - انہوں نے یہ جیلیں اس جیسے ’گنواروں‘ کے لیے ہی بنا رکھی ہیں!! ڈرتے ڈرتے وہ اسے ان کی نظروں سے دور لے گیا اور فٹ پاتھ کے کنارے ایک اونچے تھڑے پر بٹھا کر بولا: "یہ کہاں لے آئے تھے مجھے؟ اپنے ساتھ مجھے بھی جیل میں چکی پسوانا چاہتے تھے کیا؟ ان سے رحم کی امید رکھتے تھے؟ جانتے نہیں تھے انہیں؟"
وہ کچھ نہیں بولا، بولنے والا ہی بولتا رہا، ’تمہاری تو جان سلامت ہے ابھی۔ سات سمندر پار سے بھی زندہ لوٹ آئے ہو۔ انہیں تو ان پر بھی رحم نہیں آتا جو ملک میں رہ کر بھی اپنی جان کی خیر نہیں مانگ پا رہے۔ نہ منی پور میں، نہ مہاکمبھ میں۔ جو پاپ دھونے کے لیے مہاکمبھ میں نہانے گئے اور واپس نہیں لوٹے، ان کے لیے بھی ان کے دل میں کوئی درد نہیں اٹھتا۔‘
اتنا کہہ کر وہ پل بھر رکا تاکہ دیکھے کہ سننے والے پر اس کے کہنے کا کیا اثر ہو رہا ہے۔ پھر دو بارہ شروع ہو گیا۔
سنتے والے نے کہا: "تو کیا ووٹر پھر بھی انہی بے رحموں پر رحم کرتے رہیں گے؟"
سنانے والے نے کہا: "کیوں کریں گے بھلا؟ ان کے پاس دکھانے کے لیے انگوٹھا نہیں ہوگا کیا؟"
(مضمون نگار کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔