لُطفُر مُلّا: سندر بن کا گمنام ہیرو، جو بنگال ٹائیگر اور انسان دونوں کی زندگیاں بچاتا ہے

سندر بن کے لطفر ملا برسوں سے بنگال ٹائیگر کو بستیوں سے بھگا کر انسان اور جنگلی حیات دونوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ غربت اور خطرات کے باوجود یہ گمنام ہیرو اپنی جراْت مندی پر قائم ہے

<div class="paragraphs"><p>لطفر ملا اور باگھ </p></div>
i
user

ارنب دتّا

انسانوں پر باگھوں کے حملے کی خبریں تو ملتی رہتی ہیں، مگر جو لوگ انسانوں اور باگھوں دونوں کو ایک دوسرے سے بچانے کا کام کرتے ہیں، ان کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔ سندر بن کے گمنام ہیرو لطفر ملا (لطف الرحمان ملا) کی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔

لطفر ملا کہتے ہیں، ’’جب کسی گاؤں میں باگھ (رائل بنگال ٹائیگر) گھس آتا ہے، تو وہاں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔‘‘ باگھ کی خبر ملتے ہی لطفر اپنے ساتھیوں کے ساتھ فوراً پہنچ جاتے ہیں اور اسے بھگانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ چار پانچ برس سے ریاستی محکمہ جنگلات کی ایک خاص ٹیم (کُوئک ریسپانس ٹیم) کی ذمہ داری انہی کے پاس ہے۔ یہ ٹیم سندر بن کے کُل تلی بلاک کے دیہات کی حفاظت کرتی ہے۔ محکمہ جنگلات نے ایسی صرف دو ٹیمیں تعینات کر رکھی ہیں۔

باگھ بھگانے والی ٹیم کے اس سربراہ کے بارے میں جاننے کے بعد ہم موئی پِٹ ساحلی تھانے کے تحت آنے والے ان کے گاؤں پوربو گُڑگُڑیا کی طرف روانہ ہوئے۔ کچی، ناہموار سڑک پر چلتے ہوئے جب گاؤں کی طرف مڑے تو ایک ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی ملی، جس کے ساتھ ساتھ ماتلا ندی کی گہری، سیاہ لہر بہہ رہی تھی۔ آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت میں ماتلا پر کوئی کشتی نظر نہ آئی۔ ندی کے اُس پار گھنا جنگل پھیلا تھا۔

پُوربو گُڑگُڑیا کی آبادی تقریباً 5600 (مردم شماری 2011) ہے، جس میں زیادہ تر لوگ ہندو ہیں، اگرچہ مسلمان بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ بھونیشوری پنچایت کے اس گاؤں میں مچھلی پکڑنا اور کھیتی ہی روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے۔

جب ہم بَٹ ٹولا محلے پہنچے، تو کالی مندر کے آنگن میں ایک لڑکا مچھلیوں سے بھرا تھیلا لیے ملا۔ ہمیں دیکھتے ہی بولا، ’’آپ لوگ کولکاتا سے آئے ہیں نا؟ میں لطفر ملا کا بڑا بیٹا ہوں۔ میں تو آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا‘‘


لطفر کا مکان قریب ہی تھا۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنا یہ ایک منزلہ مکان تقریباً 1000 فٹ زمین پر تعمیر ہے۔ اندر بستر پر لیٹے ایک آدمی کی مدھم آواز سنائی دی، ’’کیا کہوں، کئی دنوں سے بخار نے جکڑ رکھا ہے۔’’ کیا یہی لطفر ملا ہیں؟ اتنے کمزور انسان؟

چالیس سالہ لطفر اور ان کی 33 سالہ اہلیہ صالحہ کے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا سلیم (17) مرگی کا مریض ہے اور نویں کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ چھوٹا بیٹا صلاح الدین (12) رائے دیگھی کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم ہے اور ہاسٹل میں رہتا ہے۔ صالحہ گھر سنبھالتی ہیں۔ میاں بیوی خود پڑھ نہ سکے لیکن بچوں کی تعلیم پر پورا زور دیا۔ لطفر کہتے ہیں، ’’نہ میں اور نہ میرے بہن بھائی کبھی اسکول جا پائے۔ میں کچھ پڑھ نہیں سکتا، بس اپنا نام لکھنا اور دستخط کرنا سیکھ لیا ہے۔‘‘ صالحہ کہتی ہیں، “میرا خواب ہے کہ صلاح الدین پڑھ لکھ کر بہت آگے جائے۔‘‘

ہم سوچ رہے تھے کہ لطفر اب باگھوں کی کہانیاں سنائیں گے، مگر وہ اپنی زندگی کی داستان پر واپس آ گئے۔ ماہی گیر گھرانے میں پیدا ہونے والے لطفر نے بچپن سے ہی غربت دیکھی ہے۔ ان کے لیے بنگال ٹائیگر کبھی کوئی رومانوی یا پراسرار موضوع نہیں رہا، جیسے ہمارے لیے ہے۔ ان کے لیے تو یہ روزمرہ کی حقیقت ہے۔ اسی لیے وہ اپنی دوسری کہانیاں بھی بیان کرتے رہے جو ان کے نزدیک اتنی ہی اہم تھیں۔

انتہائی غربت میں پلنے والے لطفر کے ماں باپ کا انتقال بھی علاج نہ ہونے کے سبب ہوا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میری جدوجہد 14 برس کی عمر سے شروع ہوئی۔ میں ندی میں مِن (جب ٹائیگر جھینگا لاروا کے بعد ننھے کیڑوں جیسے ہوتے ہیں) اور بگڑا (جھینگا) پکڑتا تھا۔ کچھ بڑا ہوا تو دوسروں کی کشتی پر مچھلی پکڑنے جاتا اور سات دن بعد گھر لوٹتا تھا۔‘‘


بخار کے باوجود لطفر بستر سے اٹھے اور ندی کنارے آ گئے۔ قریب ہی ایک کشتی کیچڑ بھری زمین پر کھڑی تھی۔ وہ اسے درست کرنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری رکھیں۔ کہتے ہیں، ’’باگھ کا خوف پورا سال رہتا ہے۔ سردیوں میں ان کا ملن کا وقت ہوتا ہے اور وہ اکثر گاؤں میں آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار دو نر باگھ علاقے کی لڑائی میں بستیوں تک آ نکلتے ہیں۔‘‘

اپنے تجربات کی بنیاد پر لطفر کو بستیوں کے آس پاس باگھوں کی نقل و حرکت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جنگل میں شکار کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے، جس کی بنا پر وہ گاؤں میں گھس آتے ہیں۔‘‘

وہ سندر بن کے مسائل بیان کرتے ہیں، ’’سمندر کی سطح میں اضافہ، ندیوں کے کٹاؤ سے جزیروں کا ڈوب جانا، کھیتوں میں کھارا پانی داخل ہونا اور مینگروو جنگلات کی کمی، اس سب سے باگھ کا مسکن ختم ہو رہا ہے۔ اسی لیے وہ خوراک کی تلاش میں گاؤں میں آ جاتے ہیں۔‘‘

لطفر کے الفاظ میں، ’’یہ سندر بن کا روز کا مسئلہ ہے۔‘‘ وہ باگھ بھگانے کے طریقے بتاتے ہیں، ’’جیسے ہی باگھ ندی پار کر کے آتا ہے، ہم لاٹھی اور ’چاکلیٹ بم’ (بارود والے مقامی پٹاخے) تیار رکھتے ہیں۔ یہ محکمہ جنگلات نے دیے ہیں۔‘‘ ہمارے دل میں ان کے کمزور ہتھیار دیکھ کر تشویش جاگی، مگر لطفر پُر اعتماد لہجے میں بولے، ’’ہم اپنے ساتھ جال لے جاتے ہیں، اسے چاروں طرف پھیلا دیتے ہیں۔ پھر زور سے پیڑ پیٹتے ہیں، بم پھوڑتے ہیں اور چیختے ہیں۔ جلد ہی ماما (یہاں باگھ کو اکثر ماما کہا جاتا ہے) خوف زدہ ہو کر جنگل لوٹ جاتا ہے۔‘‘ وہ فخر سے کہتے ہیں، ’’جب سے میں باگھ بھگا رہا ہوں، آج تک کسی خطرے نے مجھے چھوا بھی نہیں۔‘‘

مجھے احساس ہوا کہ لطفر ملا اور ان کی ٹیم دراصل انسانوں اور باگھ دونوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ گاؤں میں گھسنے والے ان مہمانوں کو ڈرا کر واپس جنگل بھیج دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ کوئی شخص ان نایاب جانوروں کو ہلاک نہ کر دے۔ یہ خطرناک اور جرات مندانہ کام وہی عام لوگ کرتے ہیں جو اپنی روزی کے لیے سندر بن کے جنگل اور ندیوں پر منحصر ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ لطفر کہتے ہیں، ’’ہمیں ان بھیانک شکاریوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘


کُل تلی کی دونوں ٹیموں میں ہر ایک میں 12-13 افراد ہیں۔ مگر انہیں کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی گئی اور نہ ہی محکمہ جنگلات نے ان کی سلامتی کا کوئی خاص انتظام کیا ہے۔ لطفر بتاتے ہیں، ’’باگھ بھگانے پر ہمیں ہر بار 1000 روپے ملتے ہیں۔ سال میں کم از کم تین چار بار یہ موقع آتا ہے۔ مگر اس سے پیٹ کہاں بھرتا ہے؟‘‘ اسی لیے وہ سال کے نو ماہ ندیوں میں مچھلی پکڑتے ہیں۔ یوں اوسطاً ماہانہ 8-10 ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

گزشتہ برسوں میں لطفر نے تین کشتیاں بنائیں۔ ان کے مطابق یہ ’’نو مہینے تک کم از کم 20 ماہی گیر خاندانوں کی روزی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان میں کئی جوڑے شامل ہیں جو میاں بیوی مل کر مچھلی پکڑنے جاتے ہیں۔‘‘ لطفر بتاتے ہیں کہ جب وہ خود کشتی پر نکلتے ہیں تو آٹھ نو دن گھر نہیں آتے اور ان کی کشتی زیادہ تر ندی میں ہی رہتی ہے۔ خطرات جھیلتے ہوئے روزانہ 18 گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔

کُل تلی کے ہی رہنے والے اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس کے رکن مِتھُن منڈل وضاحت کرتے ہیں کہ سندر بن ڈیلٹا میں مچھلی پکڑنا کیوں مشکل ہو گیا ہے۔ قومی ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی کے مطابق، 2584 مربع کلومیٹر رقبے میں پھیلے سندر بن ٹائیگر ریزرو میں 88 سے 100 تک باگھ ہیں۔ مِتھُن کہتے ہیں، ’’محکمہ جنگلات نے بفر زون کو مرکزی علاقے میں شامل کرنا شروع کیا ہے۔ پچھلے برسوں میں ٹائیگر زون بڑھ گیا ہے۔ مرکزی علاقے میں شہد جمع کرنے کی اجازت ہے، مگر مچھلی پکڑنے کی سخت ممانعت ہے۔ صرف بفر زون میں اجازت ہے۔ اس لیے لوگ روزی کے لیے جان جوکھم میں ڈال کر مرکزی علاقے میں چلے جاتے ہیں۔‘‘

نیشنل وائلڈ لائف بورڈ نے 19 اگست 2025 کو مغربی بنگال حکومت کی وہ تجویز منظور کر لی جس کے بعد ٹائیگر ریزرو کی حدود میں 24 پرگنہ (جنوبی) ڈویژن کے کچھ اور علاقے شامل ہو گئے۔ اس کے بعد یہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا ٹائیگر ریزرو بن گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی ماہلی گیر برادری کو روزگار کے لیے فکر مند کر رہا ہے۔


لیکن باگھ کو گاؤں میں آنے کے لیے اجازت کی ضرورت کہاں ہے؟ جب بھی کوئی باگھ آ نکلتا ہے، لطفر اور ان کی ٹیم کو بلایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود سرکاری ریکارڈ میں یہ جاننا مشکل ہے کہ کتنی جانیں بچائی گئیں یا کن لوگوں نے اپنی بہادری دکھائی۔ مِتھُن منڈل کے مطابق، ’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باگھ کے حملے سے کوئی موت ہوتی ہے تو تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے اسے اس زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے مرکزی علاقے میں ہلاک شدگان کے اہل خانہ کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔‘‘

چاہے لطفر اور ان کے ساتھی باگھوں اور انسانوں کو ایک دوسرے سے بچاتے ہوں، پھر بھی انہیں بھوک اور انہی شکاری جانوروں کے خطرے کے سائے میں جینا پڑتا ہے۔ پُوربو گُڑگُڑیا کے کنارے لطفر اب بھی اپنی کشتی مرمت کر رہے تھے۔ غیر یقینی آواز میں کہتے ہیں، ’’ہماری زندگی اسی محنت پر منحصر ہے۔ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے آرام کی زندگی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں، ’’ان شاء اللہ، ہم پھر ملیں گے۔‘‘ میں جلدی جلدی چل پڑا تاکہ کولکاتا کے لیے ٹرین نہ چھوٹ جائے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سندر بن کا یہ ہیرو، جو اپنی کشتی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا، آہستہ آہستہ نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا۔

(یہ مضمون اصل میں بنگالی میں تحریر کیا گیا تھا، ماخذ: ruralindiaonline.org)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔