مہاکمبھ اور پریاگ راج کے سبزی کسانوں کا المیہ... ہرے رام مشر

مہاکمبھ کے اس سرکاری انعقاد میں عام کسانوں کو کیا ملا اور اس نے اس ڈیڑھ ماہ میں کیا کچھ گنوایا یا حاصل کیا، اس کا حساب کتاب بہت مایوس کرتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سبزی منڈی کی جگہ مقامی سبزی بازار میں کم قیمت پر سبزی فروخت کرتے کسان</p></div>

سبزی منڈی کی جگہ مقامی سبزی بازار میں کم قیمت پر سبزی فروخت کرتے کسان

user

ہرے رام مشر

مہاکمبھ میں امنڈ رہی عقیدتمندوں کی بھیڑ کو قابو کرنے میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی زبردست ناکامی اور بدانتظامی سے شہر میں روزانہ لگ رہے شدید ٹریفک جام کا درد صرف پریاگ راج شہر کے باشندے ہی برداشت کرنے کو مجبور نہیں ہیں، ضلع کے ہزاروں سبزی کسانوں کو بھی معاشی نقصان کی شکل میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دراصل پریاگ راج ہیڈکوارٹر کے لیے ہر سمت سے آنے والی بیشتر سڑکوں پر کمبھ میلہ کے سبب روزانہ لگ رہے جام سے ضلع کے سبزی کسانوں کی سبزیاں وقت پر شہر کی منڈیوں میں نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ انہی منڈیوں سے بڑے سبزی کاروباریوں کے ذریعہ کسانوں سے براہ راست سبزیاں خرید کر ریاست کے دیگر شہروں میں بھیجی جاتی ہیں، لیکن شدید جام کے سبب ان منڈیوں میں سبزی تاجر کسانوں سے سبزیاں نہیں خرید پا رہے ہیں۔


اس جام نے شہر اور ضلع کے ٹرانسپورٹ نظام کو سنگین طور پر چوپٹ کر دیا ہے۔ اس وجہ سے ضلع سے باہر کسانوں کی سبزیوں کی سپلائی پوری طرح سے بند ہو چکی ہے۔ جو سبزیاں شہر اور ضلع میں باہر سے آتی ہیں، ان کی سپلائی بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہے۔ اس سے کچھ سبزیوں کی قیمتیں جہاں ڈیڑھ گنا بڑھ گئی ہیں، وہیں پھلوں کی دکانوں پر تو قیمتیں 40 سے 50 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ حالانکہ اس کے برعکس مقامی کسانوں کی پیداوار سبزیاں مٹی کی قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔

مہاکمبھ اور پریاگ راج کے سبزی کسانوں کا المیہ... ہرے رام مشر

مہاکمبھ کے اس سرکاری انعقاد میں عام کسانوں کو کیا ملا اور اس نے اس ڈیڑھ ماہ میں کیا کچھ گنوایا یا حاصل کیا، اس کا حساب کتاب بہت مایوس کرتا ہے۔ اس انعقاد نے پریاگ راج ضلع کے سبزی پیدا کرنے والے کسانوں کی معاشی تباہی کی جو اسکرپٹ لکھی ہے اس کی سینکڑوں کہانیاں ضلع کے چھوٹے قصبوں اور گاؤں میں لگنے والے سبزی بازاروں میں فروخت کے لیے کھڑے گڑگڑاتے کسانوں کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ قصبے کی سبزی منڈی میں فصلوں کی فروخت کے لیے آئے کسانوں کا گاہکوں سے سبزی خریدنے کے لیے گڑگڑانا ایک شدید المیہ ہے جس کی اسکرپٹ اپنے سیاسی فائدہ کے لیے یوگی حکومت کے ذریعہ مذہبی انعقاد کے نام پر اس شہر میں لکھی گئی ہے۔


پریاگ راج ضلع کے سوراؤں تحصیل کے ہتھیگنوا گرام پنچایت کے کسان راج منگل پٹیل نے ہر سال کی طرح اس سال بھی 2 ایکڑ کھیت میں پھول گوبھی اور پتّہ گوبھی کی فصل اگائی۔ وہ ہر سال اس فصل کو پریاگ راج کے ماگھ میلے کے دوران کلپ واسیوں کے درمیان سپلائی کرتے تھے (دارا گنج علاقہ میں سبزی کی دکانوں کو سیدھے سبزی سپلائی کا کام کرتے تھے)۔ ایسا کر کے وہ سال بھر کے لیے اپنے کنبہ کے کھانے و پہننے کا انتظام کرتے تھے۔ اس سال بھی انھوں نے فصل اُگائی، لیکن شہر میں لگنے والے ٹریفک جام کے سبب اسے مطلوبہ دکانوں تک پہنچا نہیں پائے۔ چونکہ فصل کے خراب ہونے کا خوف تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے قصبے کی سبزی منڈی (ہتھیگنوا بازار) میں ہی فصل کو فروخت کے لیے روزانہ اتارا، لیکن انھیں اس کی صحیح قیمت نہیں مل پائی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری محنت بے کار ہو گئی اور ہم لاگت بھی نہیں نکال پائے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ پھول گوبھی کے جس ایک پھول کی اوسط قیمت 20 روپے ہو، اگر اسے 3 روپے میں فروخت کرنا پڑے تو کسان کو کیا فائدہ ہوگا؟ راج منگل اپنے اس نقصان کا ٹھیکرا ضلع انتظامیہ کے ٹریفک کنٹرول کی بدانتظامی پر پھوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق جام کی وجہ سے ہی وہ اپنی فصل کو مطلوبہ بازار تک نہیں لے جا سکے۔ بڑی لوڈر گاڑیاں جام میں گھسنے کے لیے تیار نہیں تھیں، اس لیے وہ شہر میں سبزی نہیں لے جا سکے۔


اسی گاؤں کے دانی موریہ، جنھوں نے ایک ایکڑ پر مشتمل کھیت میں پالک، میتھی اور دھنیا کی فصل اُگائی تھی، شہر میں بھیانک جام کے سبب پیدا فصل کو بہت کم مقدار میں شہر میں سپلائی کر پائے۔ انھیں اپنے قصبے کے سبزی بازار میں پالک 2 روپے کلو سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنی پڑی۔ میتھی اور دھنیا تو مٹی کی قیمت پر فروخت ہوئی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ خراب ہونے والی فصل ہے اور جام کے سبب شہری صارفین تک ہم اسے نہیں پہنچا پائے۔ ضلع سے باہر سبزی سپلائی بند ہونے سے دانی کو تباہی کی سطح تک نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ سبزی کاروباریوں نے اسے خریدنے اور سپلائی کرنے کا جوکھم نہیں لیا۔

مہاکمبھ اور پریاگ راج کے سبزی کسانوں کا المیہ... ہرے رام مشر

ضلع کے سوراؤں قصبہ کے کسان موہن لال موریہ کا المیہ کچھ مختلف ہے۔ انھوں نے ایک بیگھا ٹماٹر کی فصل دسمبر ماہ میں ہی تیار کر لی تھی۔ انھیں امید تھی کہ کمبھ میلے میں سبزی کی طلب اور قیمت دونوں اچھی رہے گی، کیونکہ ضلع میں لوگوں کی آمد سے طلب میں بھی اضافہ ہوگا۔ ان کے طمابق دسمبر کے باقی 15 دن انھوں نے تھوک قیمت پر ٹماٹر کو ضلع کے باہر بھیجنے میں کامیابی پائی اور فصل کی لاگت تو کسی طرح نکال لی، لیکن جب فائدہ کمانے کا موقع آیا تو شہر میں ٹریفک جام کے سبب ان کا ٹماٹر شہر کے سبزی بازار تک پہنچ ہی نہیں پایا۔ سبزی تاجروں نے ٹماٹر خریدنے سے اس لیے بھی منع کر دیا کیونکہ شاہراہوں پر شدید ٹریفک جام کے سبب ٹماٹر کے سڑنے کا ڈر تھا۔ پریشان ہو کر انھوں نے ٹماٹر کی فصل کو قصبے کے بازار میں 2 سے 3 روپے کلو قیمت میں فروخت کر دی تاکہ فصل کو کھیت سے بازار تک لانے میں کیا گیا ٹرانسپورٹ کا خرچ ہی کسی طرح نکل جائے۔


شدید جام کے سبب کسان اپنی فصل کو بازار اور شہری منڈیوں تک لے جانے کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ بیشتر کسان رات کے 3 بجے اپنے گھروں سے دو پہیہ گاڑیوں میں سبزیوں کو باندھ کر نکلتے ہیں تاکہ 10 کلومیٹر کی اوسط دوری کو وہ 5 گھنٹے میں طے کر کے صبح صبح شہر کی تھوک منڈی میں پہنچ سکیں۔ چونکہ شہر میں بڑی گاڑیوں کی انٹری جام کے سبب نہیں ہو پا رہی ہے، اس لیے یہ کسان بڑی مقدار میں پیدا کی ہوئی سبزیوں کو شہر کی منڈی میں نہیں لے جا سکتے۔ ان دو پہیہ گاڑیوں سے کسانوں کو تھوڑی سہولت کے ساتھ ان کے ٹرانسپورٹ کا خرچ کم ہو جاتا ہے، لیکن حادثہ کا خوف بنا رہتا ہے۔

غور کرنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ پریاگ راج شہر میں جام کے سبب باہر سے آنے والی سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہے۔ ان حالات کے سبب پھلوں کی قیمت میں 20 فیصد سے 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، کچھ پھلوں کی قیمت میں تو 50 فیصد تک کا بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ پیاز، لہسن، لیموں، کٹہل، آنولہ، لال مرچ اور کئی دیگر سبزیاں شہر میں باہر سے آتی ہیں، ان کی قیمتوں میں کم و بیش 25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔


مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہاکمبھ کے اس انعقاد میں ہوئی سیاست کے سبب اقتدار و ہندوتوا نے اسے اپنی کامیابی کی شکل میں ضرور پیش کیا، لیکن سرکاری بدانتظامی کے سبب میلے میں آنے والے عقیدتمندوں کو جہاں 15 سے 20 کلومیٹر پیدل چلنا پڑ رہا ہے، وہیں بھیانک جام سے شہر کا عام آدمی اپنے گھروں میں ہاؤس اریسٹ ہو کر بہت مشکل میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس میلے نے ضلع کے سبزی کسانوں کی کمر توڑ بھی توڑ دی ہے۔ بھلے ہی برسراقتدار طبقہ اور ہندوتوا اس انعقاد کے سہارے اکثریتی ہندو طبقہ کو اپنے سیاسی فائدہ کے لیے کامیابی کے ساتھ استعمال کر لے، لیکن ضلع کے کسانوں کے معاشی استحکام اور روزی روٹی پر جو چوٹ ہوئی ہے، اسے یہ کسان بہت دنوں تک یاد رکھیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔