ٹائٹن آبدوز کا ٹائٹینک جیسا انجام

سطح سمندر سے 13000 فٹ نیچے کسی بھی شے بشمول انسانی جسم پر پانی کا دباؤ زمین کی فضا سے 300 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ٹائٹن آبدوز / Getty Images</p></div>

ٹائٹن آبدوز / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

سمندر کی گہرائیوں کی وجہ سے پانی کے شدید دباؤ میں ٹائٹن آبدوز اچانک اندر کی طرف دب گئی۔ اس طرح کا دھماکہ (امپلسن) مسافروں کے لیے ’ناقابل یقین حد تک تیز‘ اور ’بے درد‘ ہوتا ہے جو ملی سیکنڈ میں ہوتا ہے۔ لاپتہ ٹائٹن آبدوز کی پانچ روزہ تلاش 22 جون کو اس وقت المناک انجام کو پہنچی جب ٹائٹینک جہاز کے ملبے کے قریب اس کا ملبہ دریافت ہوا۔ لیکن کیا ہم کبھی اس تباہ شدہ سفر کے بہت سے اہم پہلوؤں کو جان پائیں گے۔ اس کا جواب تو وقت ہی دے گا۔

’اوشن گیٹ‘ کمپنی کے سی ای او اور بانی سٹاکٹن رش، برطانوی ارب پتی ایکسپلورر ہمیش ہارڈنگ، معروف فرانسیسی غوطہ خور پال ہنری نارجیولیٹ اور پاکستانی تاجر شہزادہ داؤد اور ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان 18 جون کو مشہور سمندری لائنر ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے، بحر اوقیانوس کی سطح سے تقریباً 13000 فٹ نیچے کا سفر طے کیا۔ لیکن پانچوں متلاشیوں نے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل تباہ حال ٹائٹینک جہاز جیسے انجام کا سامنا کیا۔ مہم میں صرف ایک گھنٹہ اور 45 منٹ میں ٹائٹن کابحر اوقیانوس کی سطح پر موجود جہاز ’پولر پرنس‘ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ اس کے بعد ڈرونز، ریموٹ سے چلنے والی گاڑیوں (ROVs)، جہازوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کا استعمال کرتے ہوئے ایک بہت بڑا تلاش اور بچاؤ آپریشن شروع کیا گیا۔


22 جون کو امیدیں اس وقت ختم ہوئیں جب ایک ROV کو ٹائٹینک جہاز کے ملبے سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر ٹائٹن کے ملبے کے پانچ بڑے ٹکڑے ملے۔ کوسٹ گارڈ ریئر ایڈمرل جان مائگر نے تصدیق کی کہ یہ دریافت ’تباہ کن امپلوشن‘ (دب جانا یا چپٹا ہو جانا) کے مطابق تھی۔ امریکی دفاعی ذرائع اور ٹائٹینک فلم کے ہدایت کار جیمز کیمرون نے بعد میں انکشاف کیا کہ امریکی بحریہ نے 18 جون کو ٹائٹن کے سفر پر روانہ ہونے کے 105 منٹ میں رابطہ منقطع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پانی کے اندر پھٹنے کی آواز سنی تھی۔

حکام نے 28 جون کو بتایا کہ گہرے سمندر میں آبدوز کے مہلک دھماکے کے مقام پر سمندر کے فرش سے ملبہ اور ممکنہ انسانی باقیات برآمد کی گئیں۔ ہورائزن آرکٹک جہاز کے ذریعے ملبے کے بڑے ٹکڑوں کو سینٹ جان کی بندرگاہ پر پہنچایا گیا۔  ٹائٹن کا سانحہ دنیا بھر میں موضوع بحث ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں روز نئی رپورٹس، خبریں اور بتصرے شائع ہو رہے ہیں۔ ’دی انڈیپنڈنٹ‘ نے لکھا ہے کہ تلاش میں پیش رفت نے سوالوں کی فہرست میں بھی اضافہ کیا ہے۔ کیا غلط ہوا، کیا اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا اور آگے کیا ہوگا۔ ایسے کئی سوالوں پر غور کیا گیا ہے۔


امپلوشن کی وجہ کیا تھی؟

امریکی ریئر ایڈمرل نے 22 جون کو صحافیوں کو بتایا کہ ٹائٹن کا ملبہ پریشر چیمبر کے تباہ کن نقصان کے مطابق ہے۔ پانی کے اندر پھٹنے کا مطلب ہے کہ سمندر کی گہرائیوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں ٹائٹن آبدوز اچانک اندر کی طرف دب گئی۔ فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کی سابق بحریہ افسر اور پروفیسر ایلین ماریا مارٹی نے سی این این کو بتایا کہ اس طرح کا دھماکہ  (Implosion)مسافروں کے لیے ’ناقابل یقین حد تک تیز‘ اور ’بے درد‘ ہوتا ہے جو ملی سیکنڈ کے صرف ایک حصے میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ اندر موجود افراد کو یہ احساس ہو کہ کوئی مسئلہ ہے، پوری چیز ختم ہو گئی ہو گی۔

حادثہ کے وقت، ٹائٹن آبدوز ٹائٹینک کے ملبے پر اتر رہی تھی جو سطح سمندر سے 13000 فٹ نیچے سمندر کے تہہ پر ہے۔ اس گہرائی میں، کسی بھی شے بشمول انسانی جسم پر پانی کا دباؤ زمین کی فضا سے 300 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ سطح پر صرف 14.7 پونڈ فی مربع انچ (PSI) دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ آبدوز کو 5500 PSI کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ٹائٹن میں دھماکا کہاں ہوا لیکن اسے ٹائٹینک کےملبے تک پہنچنے میں تقریباً دو گھنٹے لگنے والے تھے اور تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ میں اس کا سطح پر موجود جہاز سے رابطہ ٹوٹ گیا۔


ٹائٹن کو 13000 فٹ کی گہرائی میں دباؤ کی سطح سے بچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جس کے دونوں سرے پر ٹائٹینیم کے دو مضبوط گنبد کاربن فائبر کے پانچ انچ موٹے سلنڈر سے جڑے ہوئے تھے۔ تاہم، کاربن فائبر ٹھوس اسٹیل یا ٹائٹینیم سے کہیں زیادہ کمزور ہے جس سے آبدوزیں عام طور پر بنائی جاتی ہیں۔ OceanGate کے بانی رش نے اس مواد کا انتخاب کیا کیونکہ یہ ایک بہت ہلکا اور سستا آپشن تھا، جس نے اسے ’ریئل ٹائم ہل ہیلتھ مانیٹرنگ سسٹم‘ کے ساتھ پیش کیا جو کسی بھی خرابی، دراڑ یا دیگر خرابیوں کا پتا کافی تیزی سے لگا سکتا تھا تاکہ ہنگامی طور پر خرابی کو درست کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ پھر بھی اتنی گہرائیوں میں، غلطی کے لیے بہت کم مارجن ہے۔ اگر ہل (hull) کا ایک حصہ بھی فیل ہو جائے اور پانی میں داخل ہو جائے تو دباؤ اتنا زیادہ ہوگا کہ آبدوز اور اس کے مکین محض ملی سیکنڈ میں پھٹ جائیں گے، قطع نظر اس کے کہ آبدوز میں نگرانی کا نظام ہے یا نہیں۔

کیا سستا ڈیزائن قصوروار ہے؟

مواد کے انتخاب کے علاوہ، اس بارے میں بھی سوالات پوچھے گئے ہیں کہ کیا آبدوز کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’آف دی شیلف اجزاء‘ میں بھی بے ضابتگی اختیارکی گئی؟ OceanGate کے سابق ڈائریکٹر میرین آپریشنز ڈیوڈ لوچریج نے 2018 میں ایک مقدمے میں کمپنی پر ٹائٹن کے بارے میں حفاظتی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں، جو بعد میں عدالت سے باہر طے پا گیا، دعویٰ کیا گیا تھا کہ لوچریج نے ٹائٹن کے ’تجرباتی اور غیر تجربہ شدہ ڈیزائن‘ کے بارے میں ’سیفٹی کے اہم خدشات‘ اٹھائے تھے لیکن انہیں خارج کر دیا گیا۔


ملبے کے ٹکڑے اتنے بڑے کیوں تھے؟

ٹائٹن کا ملبہ 28 جون کو گہرے سمندر کے روبوٹ کے ذریعے ساحل پر لایا گیا۔ یہ ٹائٹینک کے کمان سے 1600 فٹ کی دوری پر، سمندر سے تقریباً 12000 فٹ نیچے ملا۔ امریکی کوسٹ گارڈ نے تحقیقات یا ساحل پر ملبے کی واپسی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ اور ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ آف کینیڈا (TSB) نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

برآمد شدہ ٹکڑوں کے بڑے سائز نے بحث کو جنم دیا کیونکہ کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں نے متنبہ کیا تھا کہ دھماکہ "تباہ کن" تھا۔ لیکن نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر ارون بنسل نے کہا کہ ملبہ حکام کی اس بات سے مطابقت رکھتا ہے جوکہ انہوں نے ٹائٹن کے تعلق سے کہی تھی۔ انہوں نے کہا ’’اگرچہ یہ متضاد معلوم ہوتا ہے، بڑی اشیاء عام طور پر پھٹنے یا دھماکے میں پاش پاش نہیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک پریشر کُکر عموماً اوپر سے پھٹ جاتا ہے لیکن اس کا جسم برقرار رہتا ہے۔‘‘


‘مکنہ انسانی باقیات‘ کی برآمدگی

کوسٹ گارڈ نے پہلے کہا تھا کہ ملبے کی گہرائی اور مسافروں کی موت کی نوعیت کی وجہ سے ان کی باقیات کے ملنے کا امکان نہیں۔ لیکن 28 جون کو اعلان کیا کہ سمندر کے فرش سے ’ممکنہ انسانی باقیات‘ برآمد کر لی ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کیسے طے پایا کہ باقیات انسانی ہیں لیکن طبی پیشہ ور اب باقاعدہ تجزیہ کریں گے۔ اگر آبدوز محفوظ نہیں تھی تو سیاحوں کو مہمات پر کیسے لے جا سکتی تھی؟

گزشتہ ہفتے رپورٹس سامنے آئیں کہ OceanGate Expeditions کو اس سانحہ کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا ہے لیکن 10 دن بعدOceanGate  ویب سائٹ اب بھی اگلے سال دو کے لئے الگ الگ آٹھ روزہ مہمات کے لیے دستیاب تاریخیں پیش کرتی ہے۔ ہر مہم میں ایک پائلٹ، ایک ’مواد کا ماہر‘ اور تین مشن ماہرین یا بغیر کسی سابقہ تجربے کے مسافر (جو 250000 ڈالرادا کرتے ہیں) حصہ لیتے ہیں۔


سیاحوں کے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے 250000 ڈالر خرچ کرنے کے باوجود OceanGate کمپنی بڑی حد تک غیر منظم کام کرنے کے قابل تھی۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ٹائٹن آبدوز بین الاقوامی پانیوں میں کام کرتی تھی، اس لیے وہ کسی بھی ملک کے ضابطے کے تابع نہیں تھی، بشمول امریکی قانون جس کے تحت مسافر آبدوزوں کو کوسٹ گارڈ کے پاس رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔

کیا OceanGate کے خلاف قانونی کارروائی ممکن ہے؟

سفر شروع کرنے سے پہلے، پانچ مسافروں نے یہ قبول کرتے ہوئے ’ذمہ داری سے چھوٹ‘ پر دستخط کیے کہ اس کے نتیجے میں ان کی موت ہو سکتی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، یہ چھوٹ OceanGate کو متاثرین کے اہل خانہ کے ممکنہ قانونی چارہ جوئی سے نہیں بچا سکتی۔ سابق سیکرٹ سروس ایجنٹ اور اٹارنی ٹموتھی ای ایلن نے ’دی انڈیپنڈنٹ‘ کو بتایا کہ اگر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آبدوز کے مکینکس یا انجینئرنگ میں نقائص کی وجہ سے امپلوشن ہوا ہے، تو ذمہ دار فریق کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، چاہے چھوٹ پر دستخط کیے گئے ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔