بی جے پی کی انتخابی گرفت کے سامنے اپوزیشن کے لیے متحد حکمت عملی ناگزیر
کیا علاقائی پارٹیاں اتحاد کی ذمہ داری نبھائیں گی یا محض اقتدار کی دوڑ میں رہیں گی؟ بی جے پی کی حکمت عملی اور انتخابی نظام پر گرفت کے پیش نظر اپوزیشن کے لیے مضبوط اور متحد حکمت عملی ناگزیر ہے

انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لیڈران میٹنگ کرتے ہوئے، تصویر @INCIndia
انڈیا گٹھ بندھن کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، خاص طور پر دہلی اسمبلی انتخابات کے بعد، جہاں کانگریس نے عام آدمی پارٹی کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ کیا یہ رجحان دیگر ریاستوں میں بھی دہرایا جائے گا؟ کیا کانگریس انڈیا گٹھ بندھن کو مزید مستحکم کرنے کے بجائے اسے کمزور کر رہی ہے؟ ان سوالات کے جوابات ہندوستان کی سیاست کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہیں۔
لوک سبھا انتخابات میں انڈیا گٹھ بندھن بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل کرنے سے روکنے میں کامیاب رہا، لیکن حکومت بنانے میں ناکام رہا۔ تاہم، اس اتحاد کی افادیت پر اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ کیا انڈیا گٹھ بندھن قصہ پارینہ بن چکا ہے؟ اس زوال کے ذمہ دار صرف کانگریس ہے، یا علاقائی جماعتیں بھی اپنی خواہشات کے باعث اتحاد کی کمزوری کا سبب بنی ہیں؟
نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو کی حمایت سے نریندر مودی نے حکومت تو بنالی، لیکن بی جے پی کی طاقت پہلے جیسی نہیں رہی۔ وقف ترمیمی بل کا مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو سونپنا اس کی واضح مثال ہے۔ ان دونوں لیڈروں کو بی جے پی کے احکامات ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور جلد یا بدیر انہیں بھی سیاسی طور پر بے اثر کر دیا جائے گا۔
انڈیا گٹھ بندھن کو مزید مضبوط بنانے کے بجائے ریاستی انتخابات میں الگ الگ حکمت عملی اپنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جس نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ گٹھ بندھن کا مقصد صرف لوک سبھا انتخابات تھا اور ریاستی سطح پر ہر پارٹی اپنی حکمت عملی بنا سکتی ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی کتنی مؤثر ثابت ہوگی؟
عام آدمی پارٹی کا معاملہ الگ ہے۔ یہ پارٹی انا موومنٹ کی پیداوار ہے، جسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل رہی۔ دہلی کے مسلم کش فسادات اور تبلیغی جماعت کے خلاف بی جے پی کے بیانیے کو ہوا دینے میں بھی عام آدمی پارٹی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دہلی کے انتخابات میں کانگریس نے بھی وہی حکمت عملی اپنائی جو عام آدمی پارٹی کانگریس کے خلاف اپناتی آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس نے عام آدمی پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ بھی سخت فیصلے لے سکتی ہے۔
بی جے پی کو شکست دینے کے لیے کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لامحدود وسائل، ہندوتوا کے ہتھیار اور انتخابی نظام پر گرفت کو دیکھتے ہوئے تمام سیکولر جمہوری قوتوں کو متحد ہونا ہوگا۔ لیکن کیا ایسا ہوگا؟ ممتا بنرجی پہلے ہی مغربی بنگال میں اکیلے انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ بہار میں راشٹریہ جنتا دل کانگریس کی سب سے مضبوط اتحادی رہی ہے، لیکن اگر کانگریس نے وہاں بھی الگ ہونے کی کوشش کی، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
کانگریس کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ زیادہ تر ریاستوں میں اس کا وجود کمزور ہو چکا ہے، اور اس کی بحالی کے بغیر بی جے پی سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ جہاں بھی سہ رخی مقابلہ ہوگا، وہاں کانگریس کو علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر بی جے پی کے خلاف لڑنا ہوگا۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی جیت میں کانگریس کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن اگر یہی رویہ برقرار رہا تو مستقبل میں اسے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
اروند کیجریوال اس وقت ایک زخمی سانپ کی مانند ہیں، جو کانگریس کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہیں آر ایس ایس کی خفیہ حمایت بھی مل سکتی ہے۔ اس صورتحال میں کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرے اور انڈیا گٹھ بندھن کو مستحکم کرے۔
راہل گاندھی اس وقت سب سے زیادہ ایماندار اور بہادر لیڈر کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں اس دور کا ابھیمنیو کہا جا سکتا ہے، جو تن تنہا بی جے پی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ تاہم، کانگریس میں آر ایس ایس کے سلیپر سیلز موجود ہیں، جنہیں نکال باہر کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی، پارٹی میں نئے، ایماندار اور جوشیلے کارکنوں کو شامل کرنا ہوگا۔
ملک کے آئینی اور جمہوری نظام کو بچانے کے لیے انڈیا گٹھ بندھن کو ازسر نو منظم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ پیش قدمی کانگریس کو ہی کرنی ہوگی، کیونکہ جو بڑا ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے۔
اگر انڈیا گٹھ بندھن کو برقرار رکھنا ہے تو علاقائی پارٹیوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ وہ محض اقتدار کی سیاست سے آگے بڑھ کر قومی مفاد میں فیصلے کریں۔ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست اور کارپوریٹ مفادات کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ اگر کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں اب بھی متحد نہ ہو سکیں تو ہندوستان کی سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا ہو سکتا ہے، جس کا فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا۔
علاقائی جماعتیں اکثر اپنے مفادات کو قومی سیاست سے مقدم رکھتی ہیں، لیکن اس وقت ہندوستان کی جمہوریت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کی کمزوری کا مطلب بی جے پی کے لیے کھلا میدان ہے، جو آئندہ انتخابات میں مزید جارحانہ حکمت عملی اپنا سکتی ہے۔
انڈیا گٹھ بندھن کے پاس وقت کم ہے۔ اگر کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں سنجیدگی سے بی جے پی کا متبادل پیش کرنا چاہتی ہیں، تو انہیں جلد از جلد اپنی حکمت عملی واضح کرنی ہوگی۔ انڈیا گٹھ بندھن کو محض انتخابی مصلحت کے بجائے ایک نظریاتی اتحاد میں بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ اتحاد تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔