معذور افراد کو نظر انداز کرتی آفات سے بچاؤ کی مشقیں

ہندوستان میں جنگی ہنگامی مشق کے دوران معذور افراد کو نظر انداز کر دیا گیا۔ وہیل چیئر استعمال کرنے والے، بہرے، آٹزم کے شکار افراد بنیادی مدد سے محروم رہ گئے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

پونیت سنگھ

ہندوستان کے متعدد شہروں میں 7 مئی کو افرا تفری پھیل گئی۔ اسکولوں نے بچوں کو اندھیرے کمروں میں بند کر دیا، دفتروں نے پردے کھینچ لیے اور لوگ اندرونی کمروں میں دبک گئے۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ سب پاکستان سے ممکنہ جھڑپ کے پیش نظر تھا تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ ’ہر زندگی اہم ہے۔‘‘

لیکن میرے اپارٹمنٹ بلاک میں یہ دس منٹ ایک مختلف کہانی بیان کر رہے تھے۔ میں نے ایک وہیل چیئر استعمال کرنے والے شخص کو تیسری منزل پر بغیر لفٹ کے پھنسے دیکھا۔ ایک بہری دادی جو سائرن کی آواز نہ سن سکیں، ایک آٹزم کا شکار نو عمر لڑکا شور سے پریشان ہو گیا اور ایک ذیابیطس کے مریض کسی پرسکون گوشے کی تلاش میں نظر آیا۔ یہ مشق ایک ایسے مستقبل کی جھلک تھی جہاں کچھ لوگ بچ نکلتے اور کچھ ‘غائب’ ہو جاتے۔

ایک جانا پہچانا پیٹرن

یو این ایچ سی آر کے مطابق دنیا بھر میں ہنگامی حالات اور جنگوں کے دوران معذور افراد کی اموات کا امکان چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جاپان کی 2011 کی سونامی ہو، ترکی کا 2023 زلزلہ یا یوکرین کی جنگ — ہر جگہ معذوروں کے لیے نکاسی اور امداد کی ناکامی دہرائی گئی۔ بغیر ریمپ والے راستے، تنگ پناہ گاہیں، صرف سمعی انتباہات اور وہ مفروضہ کہ ہر کوئی دیکھ، سن اور سمجھ سکتا ہے۔

ہندوستان کے پاس اگرچہ قانون موجود ہے — 2016 کا معذور افراد کے حقوق کا قانون — اور قومی آفات مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے خصوصی ہدایات بھی جاری ہو چکی ہیں، لیکن 7 مئی کی مشق نے ان کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔


قانونی و انتظامی غفلت

معذور افراد کے حقوق کا قانون (2016) کی دفعہ 24 کے تحت ہر آفات منصوبہ بندی، مشق اور امدادی کارروائی میں معذور افراد کو شامل کرنا لازمی ہے۔ 6 سال قبل قومی آفات اتھارٹی نے ایک گائیڈلائن جاری کی تھی جو ملٹی سینسری الارٹس، قابل رسائی پناہ گاہوں اور معاون ساز و سامان سے متعلق تھی لیکن مشق کے دوران ان میں سے کوئی بھی نافذ نہیں ہوا۔

مشق سے اجاگر ہونے والی بڑی کوتاہیاں:

ایک ہی ذریعے کا انتباہ: صرف سائرن، میگافون یا بلند آواز کے اعلانات۔ نہ کوئی وائبریشن الرٹ، نہ ایس ایم ایس، نہ روشنی والے اشارے، نہ تصویری ہدایت۔ بہرے، نیم خواندہ یا بغیر فون والے افراد کو کوئی پیغام نہ ملا۔

سیڑھیوں پر انحصار: تمام پناہ گاہیں جیسے بیسمنٹ، گیراج یا میٹرو انڈر پاس ایسی جگہیں تھیں جہاں پہنچنے کے لیے صرف اندھیری سیڑھیاں تھیں، لفٹ بند تھیں۔ وہیل چیئر، بزرگ اور بیساکھی پر چلنے والے افراد پانچ منٹ میں وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔

خصوصی ذہنی حالت والوں کے لیے سہولت نہیں: شور اور بھیڑ نے آٹزم یا دیگر اعصابی امراض کے شکار افراد کے لیے شدید اضطراب پیدا کر دیا۔ نہ کوئی پرسکون کمرہ، نہ تصویری مواد، نہ تربیت یافتہ رضاکار۔

طبی ضروریات کی نظراندازی: پانی تو تھا لیکن انسولین کے لیے ریفریجریٹر، آکسیجن، پاور چیئر کے لیے بیٹری، یا دیگر بنیادی طبی سہولیات کا بندوبست نہ تھا۔

معذوروں سے مشورہ ہی نہیں: مقامی تنظیموں سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ سادہ اور سستے حل جیسے رنگین تیروں سے نشان دہی، بڈی (دوست) سسٹم، یا فوری ریمپ کی تعمیر بھی ممکن تھی۔


یہ مشقیں کیوں اہم ہیں؟

اگر ہند-پاک میں جھڑپ بڑھتی ہے تو شمالی ہندوستان کو صرف میزائلوں کا ہی نہیں بلکہ شہری بدنظمی کا بھی سامنا ہوگا۔ بجلی بند ہوگی تو لفٹیں بند، ایندھن کی قلت سے تیماردار رک جائیں گے، اسپتال پہلے ہی بھرے ہوں گے۔

نکاسی میں تاخیر: اگر ابتدائی پانچ منٹ ضائع ہو گئے تو خاندان فائرنگ یا سڑک جام میں پھنس سکتا ہے۔

صحت کا نظام بوجھ سے نڈھال: ٹراما کیسز بڑھنے سے ڈائلیسس، کیموتھراپی، یا بحالی جیسی سہولتیں معطل ہو جائیں گی۔

یہ سب متوقع ہے، اس لیے اگر منصوبہ بندی میں ان عوامل پر غور نہیں کیا گیا تو یہ دانستہ لاپروائی ہے۔

قانونی اور اخلاقی پہلو

ہندوستان کا آئین مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور 2016 کا قانون اس کو لازمی عمل میں بدلتا ہے۔ معذوروں کو نکاسی اور مشق میں شامل کرنا قانونی فرض ہے — حالیہ مشق اس کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

کسی ایک فرد کو محفوظ بنانے کا انتظام سب کے لیے مفید ہوتا ہے۔ یہ کوئی احسان یا ‘سماجی دان’ نہیں، یہ تزویراتی حکمت عملی ہے۔

عملی اقدامات

ہر مشق کی شروعات معذوروں سے: اگر منصوبہ وہیل چیئر پر تیسری منزل کے فرد، اندھے مسافر، یا بازار میں کام کر رہے بہرے فرد کے لیے کام کرتی ہے، تو وہ سب کے لیے مفید ہوگی۔

کئی ذرائع سے انتباہ: سائرن کے ساتھ وائبریشن، ایل ای ڈی فلیش، تصویری پوسٹر، ریڈیو پر کیپشن اور سادہ زبان میں ایس ایم ایس شامل ہوں۔


قابل رسائی پناہ گاہیں: ریمپ، چوڑے دروازے، کم اونچائی والے واش روم، ٹچ سے سمجھے جانے والے راستے، آکسیجن، دوائیں، مرمت کٹس، اور جنریٹر سے چلنے والی کولنگ۔

پڑوسی بڈی نظام: ہر وارڈ میں رضاکاروں کو معذور یا بزرگ افراد سے جوڑا جائے، ان کی مدد کا مشق میں عمل ہو۔

مددگار سامان کا بندوبست: وہیل چیئر، سفید چھڑی، ہیرنگ ایڈ کی بیٹری، اور پاور بینک چارجر اسٹاک میں ہوں۔

پہلے مدد کرنے والوں کی تربیت: پولیس، سوسائٹی ورکرز، اور شہری محافظوں کو سادہ تربیت دی جائے — مثلاً وہیل چیئر کیسے سنبھالیں، اندھے کو راستہ کیسے دکھائیں۔

پالیسی اور بجٹ میں شمولیت: آفات سے بچاؤ کے ضلعی بجٹ میں معذوروں کی سہولتوں کو لازمی بنائیں۔

شفاف فیڈبیک نظام: ہر مشق کے بعد معذور شرکاء کی رائے کے ساتھ رپورٹ جاری ہو، ناکامی اور بہتری کی نشاندہی ہو اور اگلی مشق سے پہلے اصلاح کی جائے۔

حتمی سوالات جو سائرن بجتے ہی پوچھے جائیں:

- کیا ہر انتباہ نظر، سماعت، لمس اور پڑھنے سے سمجھا جا سکتا ہے؟

- کیا وہیل چیئر صارف پانچ منٹ میں نکاسی پناہ گاہ تک پہنچ سکتا ہے؟

- کیا ہر پناہ گاہ میں بنیادی دوائیں اور بجلی کی سہولت ہے؟

- کیا ہر ضرورت مند کے لیے رضاکار موجود ہے؟

- کیا عوامی شکایات کو سنا گیا؟

اگر ان میں سے ایک کا بھی جواب 'نہیں' ہے، تو منصوبہ ناکام ہے۔

آفت کی تیاری کا مطلب شور مچانا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ شور کے بعد کون محفوظ مقام تک پہنچ پاتا ہے۔ جب ریاست اپنی آبادی کے ساتویں حصہ کو ہی نظر انداز کر کے خود کو تیار بتاتی ہے، تو وہ انہی کی جان خطرے میں ڈالتی ہے جنہیں بچایا جا سکتا ہے۔

جب اگلی مشق ہو، تو تصور کریں — وہیل چیئر استعمال کرنے والا آسانی سے نیچے اتر رہا ہے، بہری دادی چمکتی بیکن سے پیغام پا رہی ہیں، آٹزم کا شکار بچہ تصویری کارڈ سے ہدایت لے رہا ہے اور ایک پرسکون رضاکار ان کے ساتھ ہے۔ جو مشق انہیں بچا سکتی ہے، وہی ہم سب کو بھی بچا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔