رنگوں کا سائنسی راز: ہم چیزوں کو جس رنگ میں دیکھتے ہیں، وہ اصل میں کیا ہے؟
نیوٹن کے تجربے سے معلوم ہوا کہ سفید روشنی درحقیقت سات رنگوں کا مجموعہ ہے۔ روشنی جب کسی شفاف وسیلے سے گزرتی ہے تو منشتر ہو کر مختلف رنگوں میں بٹ جاتی ہے، جسے ’اسپیکٹرم‘ کہتے ہیں

تصویر اے آئی
اگر آپ کسی چھوٹے بچے سے کہیں کہ وہ ایک رنگین تصویر بنائے جس میں سورج بھی ہو، تو وہ ہمیشہ سورج کو پیلے رنگ میں دکھائے گا۔ یہ تصور ہمارے ذہن میں بچپن سے بیٹھ جاتا ہے اور بڑے ہو کر بھی برقرار رہتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
دن کے وقت سورج کی روشنی اتنی تیز ہوتی ہے کہ اسے براہِ راست دیکھنا ہماری آنکھوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم عام طور پر سورج کو صبح سویرے یا شام کے وقت دیکھتے ہیں، جب اس کی روشنی نسبتاً کم ہوتی ہے اور ہمیں وہ پیلا یا سرخ نظر آتا ہے۔ اس رنگ کی تبدیلی کی سائنسی وجوہات بھی ہیں، جن پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ لیکن سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ سورج کا اصل رنگ سفید ہے۔
یہ کہانی آٹھویں صدی میں بغداد سے شروع ہوتی ہے، جب مشہور سائنسدان ابن الہیثم کو مصر کے بادشاہ نے بلایا تاکہ وہ دریائے نیل میں ہر سال آنے والے سیلاب پر قابو پانے کا کوئی حل تلاش کریں۔ لیکن جب وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے، تو انہیں یہ خدشہ لاحق ہوا کہ بادشاہ انہیں سزا دے سکتا ہے۔ جان بچانے کے لیے انہوں نے پاگل ہونے کا ڈرامہ کیا، جس کے نتیجے میں انہیں نظر بند کر دیا گیا۔
نظر بندی کے دوران ابن الہیثم نے روشنی اور بصارت کے عمل پر تحقیق شروع کی۔ انہوں نے مختلف تجربات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب روشنی کسی چیز سے ٹکرا کر آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو آنکھ کے پردے (ریٹینا) پر اس چیز کی الٹی تصویر بنتی ہے۔ بعد ازاں دماغ اس تصویر کو سیدھا کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہم چیزوں کو دیکھ پاتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں آنکھ کی ساخت کی نہایت درست اور تفصیلی تصویر پیش کی، جو جدید سائنسی سمجھ کے بہت قریب تھی۔ یہ تحقیق اس وقت کے لیے ایک انقلابی نظریہ تھی کیونکہ اس سے پہلے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ روشنی ہماری آنکھوں سے نکلتی ہے اور جب کسی چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے تو ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔
یہی نظریہ قدیم یونانی فلسفی فیثا غورث، ارسطو، اقلیدس اور ارخمیدس بھی رکھتے تھے۔ لیکن ابن الہیثم کی تحقیق نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا اور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ بصارت کا اصل عمل کیا ہے۔
اب، جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں، تو آئیے غور کریں کہ ہم رنگوں کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ روشنی کی اصل حقیقت ایک پیچیدہ موضوع ہے، جس پر ہم کسی اور وقت بات کریں گے، لیکن یہاں ہم صرف اس پہلو پر غور کریں گے کہ ہمیں مختلف رنگ کیسے نظر آتے ہیں۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہمیں بے شمار رنگ نظر آتے ہیں—لوگوں کے رنگ برنگے لباس، درختوں کی ہری پتیاں، رنگین پھول، سرخ سیب، نیلا آسمان اور بہت کچھ۔ لیکن سائنسدان رنگوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور کسی چیز کے رنگ کا سائنسی مطلب کیا ہے؟
یہ سب جاننے کے لیے ہمیں روشنی اور اس کے تعاملات کو مزید سمجھنا ہوگا۔
جب ہم کسی رنگین چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کا رنگ ہمیں اس کے بارے میں ایک اہم اطلاع فراہم کرتا ہے—مثلاً، وہ چیز سرخ ہے یا سبز، چمکدار ہے یا مدھم، اور یہاں تک کہ وہ رکی ہوئی ہے یا حرکت کر رہی ہے۔ یعنی، رنگ ہمیں دور ہی سے کسی شے کی خصوصیات کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کرتا ہے۔
لیکن سائنسدانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ رنگ کیا ہے؟ کیا رنگ کو کسی سائنسی پیمانے پر ناپا جا سکتا ہے؟ کیا ہم کوئی ایسا آلہ بنا سکتے ہیں جو کسی شے سے منعکس ہونے والی روشنی کے مختلف رنگوں کی توانائی کو ناپ سکے؟ اگر ایسا ممکن ہو، تو نہ صرف ہم کسی چیز کے رنگ کو عددی طور پر بیان کر سکیں گے، بلکہ یہ بھی معلوم کر پائیں گے کہ اس کے اندر کون سے عناصر موجود ہیں۔
گیلیلیو کے بعد سائنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ مشینوں کی مدد سے ہم نے اشیا کے مطالعے کے طریقوں کو اپنے پانچ حواس سے آزاد کر لیا ہے، کیونکہ ہمارے حواس بعض اوقات ہمیں دھوکہ دے سکتے ہیں۔ آلات کی مدد سے ہم نے اپنی بینائی کی طاقت کو بہت بڑھا لیا ہے، جیسے ’ٹیلی اسکوپ‘ اور ’مائیکرو اسکوپ‘ کا استعمال، جس نے نہ صرف ہماری سمجھ کو وسیع کیا بلکہ بے شمار دریافتوں اور ایجادات کا راستہ بھی ہموار کیا۔
اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب ہم کسی سیب کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ’یہ سیب لال ہے‘، تو اس کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے؟ عام طور پر، ہم رنگ کو کسی شے کی اندرونی خصوصیت سمجھتے ہیں، جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ ’سیب گول ہے‘ لیکن حقیقت میں، سیب ’خود لال نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ روشنی کو ایک مخصوص انداز میں منعکس کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں وہ سرخ نظر آتا ہے، حالانکہ اس پر پڑنے والی روشنی سفید ہوتی ہے۔
سیب کے رنگ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں ’نیوٹن‘ کے ایک مشہور تجربے پر غور کرنا ہوگا، جو روشنی اور رنگوں کی وضاحت میں ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔
عظیم سائنسدان نیوٹن نے ایک تجربہ میں سورج کی روشنی کو ایک شیشے کے منشور (پرزم) سے گزارا۔ اس کا نتیجہ حیرت انگیز تھا—سفید روشنی بجائے سفید رہنے کے، سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہو گئی: بنفشی (Violet)، نیلگوں (Indigo)، نیلا (Blue)، سبز (Green)، پیلا (Yellow)، نارنجی (Orange)، سرخ (Red)۔
یہ دریافت انتہائی حیران کن تھی! مگر نیوٹن کو شبہ ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ منشور خود روشنی میں رنگ شامل کر رہا ہو؟ اس شبہ کو دور کرنے کے لیے انہوں نے ایک اور منشور کا استعمال کیا، مگر اس بار اسے الٹا رکھا۔ حیران کن طور پر، جب ان سات رنگوں کو دوبارہ منشور سے گزارا گیا، تو وہ پھر سے سفید روشنی میں تبدیل ہو گئے!
یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ سفید روشنی اصل میں سات رنگوں کا مجموعہ ہے اور منشور صرف ان رنگوں کو الگ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی چیز کا رنگ، درحقیقت اس پر پڑنے والی روشنی اور اس کے انعکاس (رفلیکشن) کی خصوصیت پر منحصر ہوتا ہے۔
یہ سادہ مگر حیرت انگیز تجربہ رنگوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے میں ایک انقلاب ثابت ہوا اور اس نے روشنی کے بارے میں ہماری سمجھ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔
نیوٹن کا یہ تجربہ روشنی اور رنگوں کی سمجھ کے لیے ایک انقلاب کی شروعات ثابت ہوا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ ہماری آنکھ سے نظر آنے والی روشنی دراصل ایک وسیع تر خاندان کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔ اس خاندان میں جہاں ایک طرف (انفراریڈ، مائیکرو ویو اور ریڈیو ویو شامل ہیں، وہیں دوسری طرف الٹرا وائلٹ، ایکس رے اور گاما شعاعیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام لہریں ایک ہی رفتار سے حرکت کرتی ہیں اور بنیادی طور پر ایک ہی نوعیت کی ہیں، مگر ہماری آنکھیں اس بڑے اسپیکٹرم کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو دیکھنے کے قابل ہیں۔ اس پورے خاندان کو الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم کہا جاتا ہے۔ اس کے مختلف حصوں میں کیا فرق ہے اور یہ کس طرح کی لہریں ہیں، اس کا تفصیلی ذکر کسی اور موقع پر ہوگا، فی الحال ہم صرف آنکھ سے دیکھے جانے والے رنگوں پر بات کریں گے۔
دیگر مشاہدات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورج سے آنے والی سفید روشنی دراصل کئی رنگوں کا امتزاج ہے، یعنی اس میں یہ تمام سات رنگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری آنکھ کی محدود صلاحیت ہے کہ ہم بغیر کسی خاص وسیلے (جیسے منشور) کے ان رنگوں کو الگ الگ نہیں دیکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قوس قزح میں یہ رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔
روشنی کا اس طرح اپنے رنگوں میں تقسیم ہو جانا تحلیل (ڈسپرسن) کہلاتا ہے اور روشنی کے یوں بکھرنے والے حصے کو اس کا اسپیکٹرم کہا جاتا ہے۔
ہم گھر پر بھی آسانی سے اپنی قوس قزح بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک شیشے کے گلاس میں پانی بھر کر اسے دھوپ میں رکھیں تو سورج کی روشنی جب پانی میں سے گزرے گی تو یہ سفید روشنی اپنے رنگوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس طرح آپ اپنی ایک چھوٹی سی قوس قزح بنا سکتے ہیں۔
نیوٹن نے یہ ثابت کر دیا کہ سفید روشنی درحقیقت سات رنگوں کا مجموعہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سیب لال ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیب سے آنے والی روشنی ہمیں لال دکھائی دیتی ہے۔
اب اگر سفید روشنی سیب پر پڑے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیب نے سفید روشنی میں شامل تمام رنگوں کو جذب کر لیا **سوائے لال کے۔ یعنی، سیب نے لال روشنی کو منعکس (ریفلیکٹ) کیا اور یہی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچی، جس کی وجہ سے ہمیں سیب لال دکھائی دیا۔
دراصل سیب کے چھلکے میں تمام رنگ موجود ہوتے ہیں، لیکن وہ صرف لال روشنی کو رد کر کے واپس منعکس کرتا ہے، جبکہ باقی تمام رنگ جذب کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیب کی اندرونی خاصیت لال نہیں ہے، بلکہ وہ صرف لال رنگ کو واپس منعکس کرتا ہے۔
یہی اصول دیگر اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہری چیز ہری نظر آتی ہے کیونکہ وہ ہری روشنی کو منعکس کرتی ہے، نیلی چیز نیلی نظر آتی ہے کیونکہ وہ نیلی روشنی کو منعکس کرتی ہے، وغیرہ۔
اگر کوئی شے تمام رنگوں کو جذب کر لے اور کسی بھی رنگ کو منعکس نہ کرے، تو ہماری آنکھوں تک کوئی روشنی نہیں پہنچے گی اور وہ چیز کالی دکھائی دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اندھیرے میں ہر چیز کالی نظر آتی ہے، کیونکہ وہاں روشنی دستیاب نہیں ہوتی جو کسی بھی شے سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک پہنچے۔
اب اگر ہم کسی ایسی روشنی کا استعمال کریں جس میں لال رنگ نہ ہو، مثلاً سوڈیم لیمپ یا کسی مخصوص رنگ کی لیزر روشنی اور اسے لال سیب پر ڈالیں، تو سیب ہمیں کالا دکھائی دے گا کیونکہ اس پر پڑنے والی روشنی میں کوئی لال رنگ موجود نہیں ہوگا جسے سیب منعکس کرے۔
آپ خود ایک سادہ تجربہ کر سکتے ہیں۔ بازار سے نیلی لیزر ٹارچ خریدیں اور کسی اندھیرے کمرے میں اس کی روشنی کو ایک لال سیب پر ڈالیں۔ چونکہ اس روشنی میں لال رنگ موجود نہیں ہوگا، اس لیے لال سیب سے کوئی روشنی منعکس نہیں ہوگی، اور وہ کالا دکھائی دے گا۔
ہم سب بہت خوش قسمت ہیں کہ زمین کے گرد ایک فضائی غلاف موجود ہے، جو تقریباً 100 کلومیٹر کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں زیادہ تر نائٹروجن اور آکسیجن ہوتی ہے، جو ہماری سانس لینے کے لیے ضروری ہیں، اور اس کے علاوہ اس میں پانی کی بوندیں اور گرد و غبار کے ذرات بھی شامل ہوتے ہیں۔
جب سورج کی روشنی دن کے وقت ہماری فضا میں داخل ہوتی ہے، تو اس میں موجود مختلف رنگ مختلف مقدار میں منتشر (اسکیٹر) ہوتے ہیں۔ نیلی روشنی سب سے زیادہ منتشر ہوتی ہے، اس لیے ہمیں آسمان نیلا دکھائی دیتا ہے۔
صبح اور شام کے وقت سورج کی روشنی کو زیادہ طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے، جس کے دوران زیادہ تر نیلا رنگ منتشر ہو جاتا ہے اور باقی بچنے والے رنگوں میں لال اور پیلا رنگ غالب رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سورج ہمیں صبح اور شام کے وقت سرخ یا نارنجی نظر آتا ہے، جبکہ دوپہر میں وہ زیادہ سفید دکھائی دیتا ہے۔
اگر دن کے وقت سورج کی روشنی کو کسی منشور (پرزم) سے گزارا جائے، تو اس میں تمام رنگ نظر آئیں گے، جو آپس میں مل کر سفید روشنی بناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں سورج کا رنگ سفید ہے۔
رنگوں کی مزید دلچسپ تفصیلات پھر کبھی!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔