ماں کے نام کا احترام کرنا چاہیے استحصال نہیں
ماں کا رشتہ پاکیزہ و محترم ہے، اس کی توہین ناقابل قبول ہے۔ سیاست میں ماں کے نام کا استحصال قابل مذمت ہے۔ بہار میں اس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے

دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے (افتخار عارف)
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی (منور رانا)
ماں کی آغوش میں کل، موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے (کیف بھوپالی)
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے (عرفان صدیقی)
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے (سید ضمیر جعفری)
یہ کچھ چنیدہ اشعار ہیں جو ماں کے موضوع پر کہے گئے ہیں۔ ان اشعار میں ماں سے محبت، ماں کی مامتا، ماں کی موجودگی میں کسی بھی خطرے سے بے خوفی اور ماں کا اپنی اولاد پر سب کچھ قربان کر دینے کے جذبے کا اظہار ہے۔ پوری اردو شاعری ماں سے محبت و احترام کے جذبے سے بھری پڑی ہے۔ ماں پر اشعار کہنے والے تمام شعرا نے ماں کے تئیں عزت و احترام کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ کوئی ایک ہی ایسا شعر مل جائے جس میں کسی شاعر نے ماں کے احترام پر اس کے استحصال کو ترجیح دی ہو لیکن ہمیں ایسا کوئی شعر نہیں ملا۔ دراصل کوئی بھی حساس، سنجیدہ اور ماں کا احترام کرنے والا شخص ماں کے نام کے استحصال کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ لیکن برا ہو سیاست کا کہ بعض سیاست داں ماں کے نام کے استحصال سے بھی باز نہیں آتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں سے پاکیزہ اور محترم ہے۔ ماں کسی کی بھی ہو، قابل احترام ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کائنات کا وجود ہی ماں کے وجود سے وابستہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اگر کوئی ماں اپنی اولاد کو جننے سے انکار کر دے تو نسلوں کے آگے بڑھنے کا تسلسل رک جائے گا۔ کوئی مرد ماں نہیں ہو سکتا۔ وہ صرف باپ ہو سکتا ہے۔ اپنی جگہ پر اس کی بھی بہت اہمیت ہے کہ باپ کے بغیر کوئی بچہ دنیا میں نہیں آسکتا۔ لیکن ماں کے کردار کے دو اہم پہلو ہیں۔ ایک تو یہی کہ وہ ماں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ایک عورت بھی ہے۔ یوں تو انسانوں کا احترام انسانیت کے احترام کا لازمی جزو ہے لیکن عورت کا احترام اور ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کے احترام کے بغیر انسانیت کے احترام کا تصور محال ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کی ماں کی شان میں گستاخی کرے تو وہ ہزار بار بلکہ لاکھوں بار قابل مذمت ہے۔ اگر میری ماں میرے لیے قابل احترام ہے تو دوسروں کی مائیں ان کے لیے قابل احترام ہیں۔ لہٰذا کسی بھی سرپھرے کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی کی ماں کی توہین کرے، اس کی شان میں گستاخی کرے اور اسے مغلظات سے نوازے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ بہار میں کانگریس اور آر جے ڈی کے جلسے میں سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی اور بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کے اسٹیج سے چلے جانے کے کافی دیر بعد کسی سرپھرے نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ماں کی شان میں گستاخی کی جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس عمل کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن اسی کے ساتھ دوسروں کی ماوں کی توہین کرنے کی بھی مذمت ہونی چاہیے۔ بعد میں ایسی خبریں آئیں کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہی ہے۔ بی جے پی رہنماوں کے ساتھ اس کی تصاویر وائرل ہیں۔
اس کے باوجود اس معاملے کو ایک سیاسی ہتھیار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ہرزہ سرائی کے لیے راہل گاندھی اور تیجسوی یادو سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس معاملے سے نہ تو ان دونوں کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کی پارٹیوں کا۔ جب اس شخص کا تعلق بی جے پی سے ثابت ہو رہا ہے تو اصولاً بی جے پی کو معافی مانگنی چاہیے۔ لیکن الٹا چور کوتو ال کو ڈانٹے کے مصداق دوسروں سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکمراں جماعت میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو ایسے واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے فن میں ماہر ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ایک ماں کا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا کسی کو بھی کسی کی ماں کی توہین کرنے کا حق نہیں۔ چاہے وہ وزیر اعظم کی ماں ہو یا کسی عام شخص کی۔
اسی طرح کسی کو بھی ماں کے نام کا استحصال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بہار میں ایک جلسے میں اس واقعے کا ذکر کیا اور ایسا کرتے وقت ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ بی جے پی نے اس معاملے پر بہار بند کیا۔ حالانکہ یہ بند ایک ماں اور ایک عورت کے احترام کے لیے کیا گیا لیکن اسی بند کے دوران جانے کتنی عورتوں کی توہین و تذلیل کی گئی، ان کو مغلظات سنائی گئیں۔ یہاں تک کہ دردزہ میں مبتلا ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے اسپتال جانے سے روکا گیا کہ وہ ڈرامہ کر رہی ہے۔
حالانکہ بند کا اہتمام کرنے والی پارٹی خود ڈرامہ کرنے میں ماہر ہے۔ اس سے پورا ملک اور پوری دنیا واقف ہے۔ اس سے قبل بھی اس پارٹی نے بارہا اسی طرح کے جذباتی اور غیر ضروری معاملات کو ایشو بنانے اور ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ اس نازک معاملے پر ان کا کیا رویہ رہا ہے۔ کیا انھوں نے کبھی کسی کی ماں کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ اسی پارٹی کے رہنماوں نے سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کی والدہ اور سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کی ایک بار نہیں کئی بار توہین و تذلیل کی ہے۔ ایک سیاست داں کی خاتون دوست کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ کہا گیا۔ کیا یہ ماں اور عورت کی توہین نہیں تھی۔ لیکن قابل مبارکباد ہیں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کہ انھوں نے اس معاملے کو کبھی سڑکوں پر نہیں اچھالا۔ انھوں نے اسے سیاسی ایشو بنانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بیہودہ کوشش نہیں کی۔ انھوں نے چپ چاپ اس توہین کو برداشت کر لیا۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ بہار میں راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی ووٹر ادھیکار یاترا نے بی جے پی کو گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس یاترا کی کامیابی نے جلد ہی ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ایک موڈ سیٹ کر دیا ہے۔ وہ موڈ یہ ہے کہ اس بار عوام این ڈی اے کو مسترد کرکے انڈیا اتحاد کے حق میں فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال پر مخالف خیمے میں ہنگامہ برپا ہونا فطری تھا۔ راہل گاندھی نے ووٹ چوری کے الزام میں جو ٹھوس ثبوت پیش کیے ہیں اسے نہ تو حکومت اور بی جے پی مسترد کر پا رہی ہیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن۔ کمیشن تو معقول جواب دینے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آیا تھا۔ این ڈی اے اور بالخصوص بی جے پی کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی ٹھوس اور تعمیری کام نہیں ہے۔ ایسے میں جذباتیت کا ہی سہارا ہے۔ لیکن جذباتیت کی تلاش میں ماں کے نام کا استحصال اس رشتے کے لیے کسی کلنک سے کم نہیں۔ ایسے حربوں سے بچنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔