کربلا کی تحریک میں خواتین کا کردار

حضرت زینب نے روز عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ امام حسین کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار ادا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کے لیے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

نواب علی اختر

تاریخ اسلام کا اہم، منفرد اور بے مثل واقعہ جس نے انسانیت کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کا جامہ پہنایا وہ نواسہ رسول کریم حضرت امام حسین کا قیام ہے۔ یہ قیام مرد و زن دونوں کی فدا کاریوں اور جاں نثاریوں پر مشتمل ہے جو انسانیت کے لیے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔ اللہ نے عورت کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت کے راستے پر گامزن کرسکتی ہے۔ یہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام حسین کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تاقیامت روشن کر دیا ہے۔

واقعہ کربلا صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی کے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس واقعہ میں خواتین اور مرد، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ کردار ہے۔ درحقیقت کربلا میں کام آنے والے بہادر اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔ کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں حضرت زینب ، حضرت ام کلثوم ، حضرت سکینہ ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ء کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام، کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جناب زینب کے بے نظیر کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔


حضرت زینب نے روز عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ امام حسین کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار ادا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کے لیے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد عورتوں میں وہ جرأت پیدا ہو گئی اور دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ کربلا کا واقعہ حضرت زینب کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت زینب کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ بنت الحسین ، حضرت سکینہ بنت الحسین، حضرت فضہ، جناب رباب، جناب رملہ، جناب ام لیلی، جناب ام وہب، جناب بحریہ بنتِ مسعود، جناب خزرجیہ، جناب ہانیہ اور حضرت وہب کی منکوحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد حق پسند خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

عاشورا، کربلا کی سر زمین پر ہونے والے واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ ایک تحریک اور مقصد کا نام ہے کیوں کہ امام حسین کی اس عظیم تحریک کا آغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک 10 محرم 61 ہجری کوعصر عاشور پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب حضرت زینب اور امام زین العابدین کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ اس انقلاب کی آواز مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی۔


حضرت زینب کے خطبات سے کربلا کی تحریک کو قیامت تک اسی احساس کے ساتھ یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں بلکہ کل ہی کا واقعہ ہے۔ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد حضرت زینب نے چند اہم ذمے داریوں کو بہت احسن طریق سے کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ جن میں سب سے بڑی ذمے داری امام زین العابدین کی دیکھ بھال اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمے داری شہداء کی خواتین اور بچوں کی حفاظت۔ تیسری اور اہم ترین ذمے داری امام حسین کی تحریک کو زندہ رکھنا اور کربلا کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانا تھا۔

جہالت اور خوف میں دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو مشن امام حسین مدینہ سے لے کر نکلے تھے اس کو حضرت زینب کے کردار اور ان کی گفتار نے انجام تک پہنچایا۔ جناب سیّدہ زینب کی سربراہی میں حضرت امام حسین کے اہل حرم نے کوفہ و شام کی گلی کوچوں میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کر دیا۔ کربلا میں حضرت امام حسین کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسین کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ورنہ روز محشر دختر رسول حضرت زہرا کو کیا منہ دکھائیں گے۔


چنانچہ عصر عاشورا کو امام حسین کی شہادت کے بعد، جب اہل حرم کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، بیبیوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئیں تو جلتے خیموں سے نکل کر مصیبت زدہ عورتیں اور بچے کربلا کی جلتی ریت پر بیٹھ گئے۔ لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آ گیا۔ عورتیں رسیوں میں جکڑدی گئیں اور بیمار سید سجادؑ کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں۔ بے کجاوہ اونٹوں پر سوار، عورتوں اور بچوں کو قتل گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں لیکن اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں، نہ گھبراہٹ، نہ بے چینی، نہ اورکسی طرح کاکوئی پچھتاوا اور شکوہ تھا۔

میدان کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف نا صرف یہ کہ خاندان رسالت نے قربانیاں پیش کیں بلکہ اس گھرانے کی کنیزوں اور انصارِ حسینی کی خواتین نے بھی اپنے ایثار اور قربانیوں کے جوہر دکھائے۔ جہاں حضرت زینب اور ام لیلی نے اپنی قربانیاں پیش کیں تو وہیں جناب ام وہب، جناب بحریہ بنتِ مسعود اور جناب خزرجیہ نے بھی اپنی قربانیوں کا ہدیہ پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عظیم خواتین نا صرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں باکمال تھیں بلکہ میدان عمل میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی مثال آج تک تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کربلا کی عورتوں کا کردار ہر زمانے کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔