سرکار کی کوکھ سے ایک اور اخبار کا ’پنرجنم‘!...اعظم شہاب

Free, Frank and Fearless یعنی آزاد، واضح اور بے خوف کے سلوگن کے حامی اس اخبار کی ازسرِ نواجراء کے وقت ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ گودی میڈیا کی بھیڑ میں ایک اوررکن کا اضافہ ہے

علامتی تصویر / Getty Images
علامتی تصویر / Getty Images
user

اعظم شہاب

ہندوستانی اخبارات سے واقفیت رکھنے والے ایک ایسے ہفت روزہ سے ضرور واقف ہونگے جو بہ یک وقت تین زبانوں اردو، ہندی وانگریزی میں شائع ہواکرتا تھا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کی تعدادِ اشاعت کئی روزناموں کی تعدادِ اشاعت کو مات دیدیتی تھی۔ عام طور پر اخبارات اپنے اشتہارات کے بدولت چلتے ہیں لیکن یہ ایسا اخبار تھا جو اپنے شماروں کے فروخت سے ہی اپنے اخراجات پورے کر لیا کرتا تھا۔ 1941 میں شروع ہوا یہ اخبار گو کہ 1996 میں بند ہوا لیکن 1990کے بعد سے ہی اس میں سے کافور کی خوشبو آنے لگی تھی جب اس کی ادارت میں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی تھی جنہوں نے اسے تحقیقاتی صحافت سے نکال کر جذباتیت کے بھنور میں پہونچا دیا۔ اپنے عروج کے زمانے میں اس اخبار نے شعبہ صحافت کو بھی متاثر کیا تھا۔صحافت میں تحقیقاتی و سنسنی خیزی کا سہرا غالباً اسی اخبار کے ہی سر جاتا ہے۔ اس زمانے میں اس کا سلوگن ہوا کرتا تھا ’فری، فرینک، فیئرلیس‘ یعنی آزاد، واضح اور بے خوف۔ اپنے اس سلوگن کے مطابق اس اخبار کے مشمولات ایوانِ حکومت کو بھی ہلا دیا کرتے تھے۔ آج 26 سال بعدیہ اخبار ممبئی سے ایک بار پھر شروع ہوا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے اپنی روایت کے برخلاف اس بار اس کا یہ پنرجنم حکومت کی کوکھ سے ہوا ہے۔ 15 ستمبر 22 کو ممبئی کے مشہورعلاقے نریمن پوائنٹ پر واقع این سی پی اے ہال میں اس کے انگریزی وہندی ایڈیشن کا اجراء ہوا جس میں مرکزی وزیرمملکت برائے سیاحت شری پد نائک اعزازی مہمان تھے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کوچیف گیسٹ کی حیثیت سے بلایا گیا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔ سپرسی ایم یعنی دیویندرفڈنویس کو بلایا نہیں گیا تھا، اس لیے وہ بھی نہیں آئے۔ البتہ این سی پی کے قدرآور لیڈر اورسابق نائب وزیرداخلہ چھگن بھجبل ضرور موجود تھے جبکہ دعوت نامے میں ان کا نام موجود نہیں تھا۔ اس انتظامی سقم کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ عین موقع پر اخبار کا انتظامیہ ہڑبڑاہٹ کا شکار ہوگیا تھا جس کا اظہار انہوں نے پروگرام کی بے ترتیبی کی شکل میں ظاہر کیا۔ سی ایم اورسوپر سی ایم کی اس پروگرام سے دوری غالباً اس وجہ سے رہی کہ جب وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ اخبار ان کا ہی مرہونِ منت ہے تو پھر اس پر اپنا ٹھپہ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔


لیکن ٹھپہ تو اخبارکے انتظامیہ نے خود لگادیا۔ ہوا یوں کہ شرکاء کو ایک تھیلی میں اخبارات کے شماروں کے علاوہ میز پررکھاجانے والا ایک کیلنڈربھی تحفتاً دیا گیا۔ اس دیدہ زیب کیلنڈر کی خصوصیت یہ رہی کہ اس کے ہرصفحے پر پردھان سیوک کا کوئی نہ کوئی جملہ موجود ہے۔ جملے بازی پرچلنے والی حکومت میں پردھان سیوک کے جملوں کواس اخبار کے انتظامیہ نے آخر وہ مقام دے ہی دیا جو کسی مفکر یا فلاسفر کے اقوال کو ملاکرتا ہے۔گویا اخبار کا انتظامیہ پردھان سیوک کے جملوں کو ملک کی تعمیر وترقی میں اسی طرح ایک سنگِ میل ثابت کرنا چاہتا ہے جس طر ح اس اخبار کے بانی نے اسے اخبار کوہندوستانی صحافت کا سنگِ میل بنادیا تھا۔ لیکن جمہوریت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنی اہمیت تسلیم کرانے اور جملوں کی بنیاد پر ہندوستانی سیاست کا تیاپانجا کرنے میں ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ ایک کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے جبکہ دوسرے کی نرے جذباتیت پر۔یوں بھی اگر کسی جذباتی بات کو’کرتویہ پتھ‘ پر ہی لکھ دیا جائے تو اس کے معنی تھوڑی نہ تبدیل ہوجائیں گے؟لیکن اپنے کیلنڈر پر پردھان سیوک کے جملوں کو کسی قول کی مانند پیش کرکے یہ بتادیا گیا کہ اخبار کا آئندہ کا سفر کس سمت اور کس نہج پر ہونے والاہے۔

اس موقع پر اخبارکے انگریزی وہندی شماروں کا اجراء عمل میں آیا۔ اس اخبارسے واقفیت رکھنے والے اس بات سے بھی آگاہ ہونگے کہ اس کے تمام ایڈیشنوں کی شناخت اردو ایڈیشن سے ہی تھی۔ اگراس کا اردو ایڈیشن نہیں ہوتا تو یہ کبھی مقبولیت کی اس منزل پرپہنچ ہی نہیں سکتا تھا جہاں وہ پہنچا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو ایڈیشن کو ایسے ایسے جید اور نابغہئ روزگار صحافیوں کی خدمات حاصل ہوئیں جو اپنے دور میں یکتائے فن تھے۔ کیفی اعظمی، خواجہ احمد عباس، فضیل جعفری جیسے لوگ اس اخبار سے وابستہ رہے جبکہ حسن کمال جیسے لوگ اس کی ادارت کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ اردو کا یہ ہفت روزہ اپنے دور میں کئی روزناموں کی اشاعت پرفوقیت رکھتا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ اجراء کے اس پورے پروگرام میں اردو کہیں موجود نہیں تھی نہ اخبار کی شکل میں اور نہ ہی تذکرے کے طور پر۔ جبکہ اسی پروگرام میں حسن کمال صاحب بھی موجود تھے، پنرجنم لینے والے اس اخبار کے ایڈیٹر اِن چیف صاحب کووہاں پر موجود ایک سماجی خدمتگار نے بتایا کہ یہ حسن کمال صاحب ہیں جو اردو ایڈیشن کے ایڈیٹر تھے، تو وہ صاحب آئے اور حسن کمال صاحب کواسٹیج پر لے جاکر کسی بت کی مانند بٹھادیا۔


جن ایڈیشن کا اجراء عمل میں آیا اس پر بانیئ اخبار کی تعریف وتوصیف کے علاوہ ’وشوگرو صاحب‘ کے کارہائے نمایاں کو بڑی کشادگی سے جگہ دی گئی ہے۔صفحہئ اول پر پردھان سیوک کی ہوا میں ہاتھ لہراتی ہوئی تصویر کے ساتھ انہیں نئے ہندوستان کا معمار ثابت کیا گیا ہے۔ ان مشمولات کو دیکھ کر یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ یہ پورا اخبار ہی دراصل پردھان سیوک کی مدح سرائی کے لیے ہی شائع کیا جارہا ہے۔ پھر بھی اس کی پرانی روایت کے پیشِ نظر ہم جیسے سادہ لوح اس کو محض ایک اتفاق سمجھ لیتے لیکن جب ایڈیٹراِن چیف صاحب نے اپنی تقریر میں جب اس بات کا اعلانیہ اعتراف فرمایا کہ اس اخبار کے ذریعے ہم ’وکاس کی پترکاریتا‘کرینگے تو بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ مرکزی وزیرموصوف صاحب نے بھی تقریر فرمائی، لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ خود وزیرموصوف بھی نہیں سمجھ پائے کہ انہیں بولنا کیا ہے اور وہ کیا بول رہے ہیں۔وہ اپنے ساتھ کوئی نوٹس لائے تھے، جنہیں دیکھ کر تقریر فرمارہے تھے لیکن وہ نوٹس بھی ایسے تھے جیسے کسی نے انگریزی کے کسی مضمون کو گوگل کی مدد سے ہندی میں ترجمہ کرلیا ہو۔ پھر بھی وزیرموصوف صحافیوں اور میڈیا کے لیے پردھان سیوک کے ذریعے کیے گئے فلاحی کاموں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے۔

لیکن این سی پی کے چھگن بھجبل نے وزیرموصوف کی تقریر کے بعدکی فوراً اپنی تقریر میں بین الاقوامی تناظر میں ہندوستان کی آزادیئ صحافت کا حوالہ دے کر وزیرموصوف کی ہوا اکھاڑ دی۔بدقسمتی سے وزیرموصوف اس وقت موجود نہیں تھے کیونکہ اپنی تقریر کے خاتمے کے بعد انہوں نے وہاں رکنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ایڈیٹر اِن چیف صاحب کی ’وکاس کی پترکاریتا‘ کا جواب ہندی کے معروف صحافی کمار پرشانت نے دیا۔ انہوں نے کہا کہ”چندلوگوں تک پہنچنے والا وکاس،وکاس نہیں ہوتا بلکہ وکاس وہ ہوتا ہے جو ملک کے آخری آدمی تک پہنچے،جو بدقسمتی سے آج کہیں نظر نہیں آرہا ہے“۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ”ایک صحافی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ حکومت کی پالیسی وپروگرام کی آنکھ موند کر حمایت کرے بلکہ اس کا کام ان پالیسیوں وپروگرام پر سوال اٹھانا ہے تاکہ انہیں عوام کے لیے مزید مفید بنایا جاسکے“۔ کمار پرشانت وبھجبل نے اپنی تقریر میں ہی اخبار انتظامیہ کو اجراء کے موقع پر ہی آئینہ دکھادیا، لیکن امید کم ہے کہ یہ اخباراپنے پرانے سلوگن ’فری، فرینک، فیئرلیس‘ کے معیار پر پورا اترسکے گا۔ اس کی یہ ازسرِ نواشاعت اس اخبار کی روایت کو تو خیر کیا تازہ کرے گی البتہ یہ گودی میڈیا کی بھیڑ میں ایک اوررکن کا اضافہ ضرور ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔