روزہ کی حقیقت صرف روزہ دار ہی جانتا ہے

روزہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہر عبادت کے اپنے پہلو ہیں لیکن روزہ کے کچھ نمایا پہلو ہیں اور اس پر کسی لاک ڈاؤن کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں جماعت سے نماز ادا کرنے پر مجبور ہیں، لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع ہوئی تو اس سال حج ادا کرنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی صورتحال بگڑی تو زکوۃ کی ادائیگی متاثر ہوگی مگر روزہ ایسی عبادت ہے جس پر طبی تقاضوں کے علاوہ کوئی اور پہلو اثر انداز نہیں ہوتا۔

نماز، زکوٰۃ، حج اور دیگر عبادات اپنا ایک ظاہری وجود رکھتی ہیں۔ جن کی ادائیگی سے اکثر اوقات انسان کے اندر دکھلاوا اور ریاکاری کے جذبات بھی فروغ پانے لگتے ہیں، یوں ان سے اخلاص ایسی نعمت جو مقصود عبادت ہے، جاتی رہتی ہے مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس سے ریاکارانہ جذبات کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ کوئی طریقہ ہے جس سے روزہ دار کسی کو دکھاسکے کہ وہ روزے سے ہے۔ پس یہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔


بندے کو اس جوادِ مطلق نے طرح طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن سے وہ فائدہ اٹھاتا اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ خوردونوش سے متعلقہ نعمتوں سے جب چاہتا ہے اپنے ذوق طعامی کی تسکین کرتا ہے مگر روزہ ایک ایسا عملِ عبادت ہے کہ انواع و اقسام کی نعمتیں، مشروبات و ماکولات اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں، کوئی روکنے والا بھی نہیں ہوتا لیکن روزہ دار محض اپنے رب کی بندگی کے احساس، اس کی تابع فرمانی اور اس کی خوشنودی کی خاطر غروب آفتاب تک بھوک، پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے قلب و نظر اور فکرو احساس پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت یوں غالب ہوتی ہے کہ وہ غروبِ آفتاب سے ایک لمحہ پہلے بھی کچھ کھانے پینے کو اس حاکم مطلق کی نافرمانی سمجھتا ہے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ سرافگندگی کے جذبات سے اس لمحہ خیر کا انتظار کرتا ہے کہ جب وہ لذت و فرحت افطار سے شاد کام ہو اور اس منعم حقیقی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس کی بارگاہ میں کلمہ شکر ادا کرے۔

یہی وہ جذبہ ہے جو روزے کا مقصود اصلی ہے اور جسے ہر مسلمان کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے کہ انسان اس دنیا میں آتے ہی ایسا روزہ رکھے کہ اس کی افطاری اس کے سفر حیات کے اختتام پر دیدار الہٰی کے ساتھ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */