بیتے دنوں کی بات: نئی نسل ٹیلی گرام یا تار سے واقف بھی نہیں

ٹیلی گرام یا تار آج بیتے دنوں کی بات ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ مواصلات کے لئے انتہائی ضروری ذریعہ تھا، ہندوستانی فلموں میں تو ٹیلی گرام کا استعمال ہی موقع کو سنسنی خیز بنانے کے لئے ہوتا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>ٹیلی گرام، تصویر Getty Images</p></div>

ٹیلی گرام، تصویر Getty Images

user

سید خرم رضا

مواصلات کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ اطلاع اگر صحیح وقت پر مطلوبہ شخص تک پہنچ گئی تو اس کے نتائج حیرت انگیز طور پر انقلابی ثابت ہوتے رہے ہیں اور اگر اسی اطلاع کے پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے تو مطلوبہ شخص کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے۔ اطلاع کے وقت پر پہنچنے کے علاوہ اطلاع پہنچانے والے شخص پر کتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے اس کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے اور ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔

گھڑ سواروں کے ذریعہ بادشاہ دوسری ریاست کے اپنے ہم منصب اور کبھی جنگ کے میدان میں اپنے خاص جرنیلوں کو پیغامات بھیجتے رہے ہیں۔ جنگ کے دوران جھنڈوں کے رنگوں، آگ، دھواں اور ڈھول کے ذریعہ پیغامات بھیجے جاتے رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مواصلات کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے اور دور کے حساب سے اس کے ذرائع بدلتے رہے ہیں۔ کبھی اہم اطلاع کو پہنچانے کا ذریعہ آگ، دھواں اور ڈھول رہا، پھر بعد میں گھڑ سوار رہے، پھر ٹیلی گرام اور اب ٹیلیفون، ای میل وغیرہ ہیں۔


درمیان کا ایک دور یعنی تقریباً دو سو سال ایسے رہےہیں جس میں ٹیلی گرام یعنی تار کے ذریعہ اطلاع دینے کو اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور ہندوستان میں 163 سال تک مواصلات میں یہ اپنا اہم کردار ادا کرتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب انسان نے ترقی کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ دیے تھے اور پہیے کی ایجاد کے بعد ترقی کی رفتار تھوڑی تیز ہو گئی تھی۔ بہرحال ٹیلی گرام کی ایجاد کو جمہوریت سے جوڑ کر پیش کیا جانے لگا جس میں کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اس کی ایجاد جمہوری علامت ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹیلی گرام میں حقیقی جمہوری طریقہ کار نہیں ہے کیونکہ اس میں عام طور پر خفیہ کردہ کوڈ کا استعمال ہوتا ہے۔

بہرحال، نئی نسل جو دھیرے دھیرے لکھنا بھول رہی ہے، کیونکہ اس کا بولا ہوا جملہ ہو بہو کمپیوٹر اسکرین پر نظر آتا ہے، اس نے ٹیلی گرام یا تار کا استعمال تو دور کی بات، اس کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ پہلی سرکاری ٹیلی گرام لائن جو کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کو جوڑتی تھی، اکتوبر 1851 میں کھلی تھی۔ اس پر یعنی سب سے کم فاصلے پر ٹیلی گرام بھیجنے پر یعنی 400 میل تک، ہر لفظ کے لیے ایک 'آنہ' یا 16 الفاظ کے لیے ایک روپیہ لیا جاتا تھا۔ واضح رہے کہ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے ہیں۔ سال 2011 میں بی ایس این ایل نے 60 سال کی مدت کے بعد ٹیلی گرام کی قیمت میں اضافہ کیا۔ 50 الفاظ کے لیے تین یا چار روپے سے تار کی قیمت 50 الفاظ کے لیے 27 روپے تک بڑھا دی تھی اور سال 2013 میں یہ خدمت بند کر دی گئی۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ٹیلی گرام کا استعمال 1850 میں ہوا تھا اور 14 جولائی 2013 کو یہ سروس بند کر دی گئی تھی، یعنی 163 سال تک ٹیلی گرام سروس کا استعمال ہوا۔


حکومتوں کے لئے تو اطلاع اہمیت کی حامل ہوتی ہی ہے لیکن عام لوگوں کے لئے بھی اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کسی کے بچے کا نتیجہ ہو، نوکری ہو، کسی کا انتقال ہو، کسی کے یہاں ولادت ہو یا کوئی بڑی خبر ہو، ان سب کی جلد اطلاع پہنچانے کا ذریعہ جو صاحب حیثیت ہوتے تھے ان کے لئے تار ہی ہوتا تھا۔ اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے کہ ہر خبر بمع تصویر لوگوں کے پاس فوراً موجود ہوتی ہے۔

ویسے تار یا ٹیلی گرام کرنا ایک ٹینشن کا کام ہوتا تھا۔ پہلے ڈاک خانہ جا کر ٹیلی گرام کے لئے بنے الگ سے دفتر میں جا کر بتایا جاتا تھا کہ فلاں جگہ ٹیلی گرام کرنا ہے اور اس کے بعد یہ پوچھنا لازمی حصہ ہوتا تھا کہ کتنے الفاظ کے لئے کتنے پیسے دینے ہیں۔ پہلے گھر پر پھر راستے بھر ذہن میں بھیجنے کے لئے ایسے جملے بنائے جاتے تھے جس میں کم سے کم الفاظ استعمال کئے جائیں۔


ویسے ہندوستان میں ٹیلی گراف یا ٹیلی گرام کی خدمات 1850 میں شروع ہوئی۔ پہلی ٹیلی گراف لائن حالانکہ کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کے درمیان صرف تجرباتی طور پر قائم کی گئی تھی لیکن 1854 میں ٹیلی گراف سروس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا اور 1854 میں ممبئی سے پونے کے لیے پہلا ٹیلی گرام بھیجا گیا۔ 1850 سے 1902 تک ٹیلی گرام کیبل لائنوں کے ذریعے بھیجے جاتے تھے، لیکن 1902 میں ہندوستانی نظام وائرلیس ہو گیا۔ ہندوستان میں آخری ٹیلی گرام ناگپور شہر سے 14 جولائی 2013 کو رات 11:55 بجے، ایک کویتا واگھامارے نے اپنی والدہ کو بھیجا تھا۔ اس میں اس نے ایک نظم لکھی جس میں اپنی ماں کی محبت کی تعریف کی اور اسے سلام کیا۔

بہرحال، ٹیلی گرام یا تار آج بیتے دنوں کی بات ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ مواصلات کے لئے انتہائی ضروری ذریعہ تھا۔ ہندوستانی فلموں میں تو ٹیلی گرام کا استعمال ہی موقع کو سنسنی خیز بنانے کے لئے ہوتا تھا۔ ٹیلی گرام کے ذریعہ غم، افسوس، خوشی اور انتہائی اہم معلومات پہنچائی جاتی تھیں جس کی جگہ اب ای میل، واٹس ایپ اور ویڈیو نے لے لی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔