منافرتی ایجنڈے کا بڑھتا دائرہ... سراج نقوی

’ڈیلی میل‘ کی مذکورہ رپورٹ نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ سنگھ اپنی منافرتی سرگرمیوں کا دائرہ ہندوستان سے باہر بڑھا کر پوری دنیا میں ہندو قوم پرستی کے نام پر تشدد کا کھیل کھیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>آر ایس ایس،&nbsp;تصویر آئی اے این ایس</p></div>

آر ایس ایس،تصویر آئی اے این ایس

user

سراج نقوی

بھگوا طاقتیں صرف ہندوستان میں ہی ہندوتوا کے نام پر منافرت کو بڑھانے کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں، بلکہ ان سرگرمیوں کا دائرہ ہندوستان سے باہر مشرق وسطیٰ حتیٰ کہ یوروپ اور امریکہ میں بھی بڑھانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت برطانیہ کے لیسٹر میں گزشتہ برس ہوئے ہندو-مسلم تصادم کے تعلق سے’ڈیلی میل‘ میں چند روز قبل شائع ایک رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس لیسٹر میں ہندو-مسلم ٹکراؤ کے پس پشت ’مودی کی قوم پرست پارٹی‘ بی جے پی کا ہاتھ تھا۔برطانیہ کے اس اہم اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگست 2022 میں لیسٹر شہر میں بھڑکے فساد میں برطانوی ہندوؤں کو مسلم نوجوانوں کے خلاف اکسانے کا اور تصادم کے حالات پیدا کرنے کا شک ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی پر ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس یو کے کے شہر لیسٹر میں پر تشدد نسلی تصادم کے بعد حالات کافی کشیدہ ہو گئے تھے۔ لیسٹر میں رہنے والی ہندو برادری عام طور پر امن و سکون سے رہتی آئی ہے، اور مقامی مسلمانوں سے اس کے ٹکراؤ کی اس سے پہلے خبریں نہیں آئیں، لیکن گزشتہ برس جس طرح ہندو شدت پسند عناصر نے مسلمانوں کے خلاف مورچہ کھولا اور ان پر منظم حملے کیے گئے ان کا انداز ٹھیک اسی طرح تھا کہ جس طرح ہندوستان میں بھگوا طاقتیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتی ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں ان طاقتوں کو اپنی مبینہ اکثریت کا زعم بھی ایسا کرنے کے لیے اکساتا ہے، لیکن جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے وہاں اس طرح کے حملے کرنے سے ہندو اور مسلمان دونوں ہی دور رہتے ہیں۔ اسی لیے یہ سوال اہم ہے کہ آخر وہ کیا حالات اور اسباب تھے کہ جنھوں نے برطانیہ کی ہندو آبادی کو بھی اسی لائن پر ڈال دیا کہ جس پر آج ہندوستان میں بھگو ا طاقتیں چل رہی ہیں؟ اس سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ سنگھ، بی جے پی اور دیگر بھگوا طاقتیں ہندوستان کے ماحول کو زہریلا کرنے کے بعد اب دنیا بھر میں جہاں جہاں ممکن ہو اپنا غلبہ قائم کرنے اور طاقت کے بل پر اپنا اثر بڑھانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ لیسٹر کے مذکورہ تصادم کے پس پشت بھی بھگوا طاقتوں کی اس غیر دانشمندانہ پالیسی کا ہی دخل ہے۔


حالانکہ ہندو قوم پرستی کے اس جنون میں مبتلا یہ طاقتیں بھول جاتی ہیں کہ اس کا نقصان ان ممالک میں برسوں سے رہنے والے ہندوؤں کو بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہندوستان سے باہر جہاں بھگوا طاقتیں اپنا اثر بڑھانے کا خواب دیکھ رہی ہیں ان میں عیسائی اور مسلم اکثریت والے اور ان کی ہی حکمرانی والے ممالک شامل ہیں۔ جبکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے۔ شائد اس لیے کہ ان دو مذاہب کے سامنے ہی اس کے مخصوص ’ہندوتوا‘ کی چمک دھیمی پڑ جاتی ہے۔ 2003 میں اپنے ایک مضمون میں سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ دانشور سریندر اٹاری نے لکھا تھا کہ، ”ہمارے دو دشمن ہیں، اسلام اور عیسائیت“۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مضمون نگار نے حالانکہ یہودی مذہب کے تعلق سے بھی اس مضمون میں منفی خیالات کا ہی اظہار تھا کیا لیکن صاف طور پر یہ بھی قبول کیا کہ ایک شاطرانہ چال کے تحت ہمیں ان کے ساتھ اسٹر یٹجک شراکت کی ضرورت ہے۔ آج کی مودی حکومت اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ رشتوں کو اسی شاطرانہ چال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سنگھ پریوار صرف لیسٹر یا برطانیہ میں ہی اپنی سازشوں کا جال نہیں پھیلا رہا بلکہ یوروپ اور امریکہ میں بھی بھگوا تنظیموں نے بڑے پیمانے پر اپنے دفاتر قائم کر لیے ہیں، اور وہاں بھی ’ہندوتوا‘ کا زہر پھیلانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ان تنظیموں کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں گزشتہ کچھ عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ افراد کو واپس ہندوستان بھی بھیجا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود اب بھی ان مسلم ممالک میں سے بیشتر کے حکمراں اس تعلق سے خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔ کیا یہ سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں اور افراد کی انتہائی درجے باغیانہ سرگرمیوں کا ثبوت نہیں کہ دنیا کے جن ممالک میں رہ کر وہ رزق حاصل کر رہے ہیں اور اپنے ملک یعنی ہندوستان کی معیشت کو اس کا فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں، ان ممالک کی عیسائی یا مسلم اکثریت کے خلاف نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام بھی کر رہے ہیں؟


لیسٹر کے فرقہ وارانہ فساد سے متعلق مذکورہ رپورٹ کہتی ہے کہ،”بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قریبی عناصر پر گزشتہ گرمیوں کے دوران بھڑکے فساد میں برطانوی ہندوؤں کو مسلم نوجوانوں سے ٹکراؤ کے لیے اکسانے کا شبہ ہے۔“ اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس سے بات کرتے ہوئے یو کے کی پولیس کے ایک اہلکار نے کہا کہ ایسے ثبوت ملے ہیں کہ بی جے پی سے وابستہ کارکنان نے ’کلوزڈ واٹس ایپ گروپوں‘ کا استعمال کرتے ہوئے ہندو مظاہرین کو سڑکوں پر اترنے کی ترغیب دی تھی۔ پولیس اہلکار کے اس الزام کے تناظر میں ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہونے والے فسادات کا جایزہ لیں، تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ ہمارے ملک میں بھی بھگوا طاقتیں مسلمانوں کے خلاف اسی طرح منظم ہو کر اور ان کے علاقوں میں شر پھیلا کر اپنے منافرتی ایجنڈے پر عمل کرتی رہی ہیں۔

لیسٹر کے جس تصادم کی بات ہو رہی ہے اس میں بھی فرقہ پرستوں نے اسی طرح رام کو بدنام کرتے ہوئے ”جے سری رام“ کے نعرے لگائے اور لیسٹر کی مسلم آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ یہ الگ بات کہ برطانیہ میں سنگھ کی پروردہ تنظیم بی جے پی کی حکومت نہیں ہے، اور نہ ہی وہاں کے سلامتی دستوں میں فرقہ پرست عناصر کی کثرت ہے۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ بھگوا عناصر کے شر پر جلد ہی قابو پا لیا گیا بلکہ لیسٹر کے مسلمانوں نے بھی اپنی سطح پر فرقہ پرستوں کو ان کی شرانگیزی کا معقول جواب دیا، اور اس طرح ان طاقتوں کو اپنے قدم واپس کھنچنے پڑے۔ ان فسادات نے برطانوی سماج کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا، اور اس سلسلے میں کئی سروے بھی کیے گئے۔ سوشل میڈیا کے رول کی بھی جانچ کی گئی۔


اس لیے کہ ہندوستان میں بھی جہاں جہاں بھگوا طاقتیں فساد بھڑکاتی ہیں وہاں سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ بی جے پی اور سنگھ کا میڈیا سیل ہی کرتا ہے۔ لیسٹر کے مذکورہ فساد کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسے بھڑکانے میں ہندوستان سے کنٹرول کیے جانے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس کا استعمال کیا گیا۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ملک میں اس طرح کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ فرقہ پرست طاقتیں ہی چلاتی ہیں۔ ان طاقتوں نے ہی لیسٹر میں مقامی ہندوؤں کو وہاں کے مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہونے پر آمادہ کیا اور اس طرح لیسٹر یا برطانیہ کی تاریخ میں جو اب تک نہیں ہوا تھا وہ ان فسادات میں دیکھنے کو ملا۔ یہ الگ بات کہ اس طرح کے واقعات نے مغربی ممالک کو چوکنّا کر دیا ہے اور اس کا خمیازہ سنگھ پریوار کو مختلف شکلوں میں کبھی نہ کبھی بھگتنا پڑ سکتا ہے، لیکن ’ڈیلی میل‘ کی مذکورہ رپورٹ نے یہ تو ثابت کر ہی دیا ہے کہ سنگھ پریوار اپنی منافرتی سرگرمیوں کا دائرہ ہندوستان سے باہر بڑھا کر پوری دنیا میں ہندو قوم پرستی کے نام پر تشدد کا کھیل کھیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔