حکومت جھکنے پر مجبور مگر لڑائی ابھی لمبی ہے

عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی، ان کے نام پر متعدد فلاحی اسکیمیں چلانے والی اور خواتین کو قانون ساز اداروں میں ریزرویشن دینے سے متعلق بل کا نام ناری وندن رکھنے والی حکومت کا رویہ انتہائی افسوسناک رہا

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر یو این آئی</p></div>

فائل تصویر یو این آئی

user

سہیل انجم

کیا حکومت خاتون پہلوانوں کے آگے جھک گئی ہے اور کیا اب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف عدالتی کارروائی تیز ہو جائے گی؟ یہ سوالات وزارت کھیل کی جانب سے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے نو منتخب صدر سنجے سنگھ اور پوری باڈی کو معطل کیے جانے کے فیصلے سے اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی اس کا کوئی یقینی اور ٹھوس جواب نہیں دیا جا سکتا کہ واقعی حکومت جھک گئی ہے اور اب برج بھوشن کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ لیکن جیسا کہ ریسلر ونیش پھوگاٹ نے کہا کہ حکومت نے اگر چہ یہ قدم انتہائی تاخیر سے اٹھایا ہے تاہم اس میں امید کی کرن نظر آتی ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خاتون پہلوانوں نے سابق صدر اور بی جے پی ایم پی برج بھوشن کے خلاف خاتون جنسی استحصال کا الزام عاید کیا تھا اور تقریباً 40 دنوں تک انھوں نے دہلی کے جنترمنتر پر ان کے خلاف دھرنا اور احتجاج کیا تھا اور بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ لیکن بجائے اس کے کہ حکومت کے کانو ں پر جوں رینگتی اور وہ برج بھوشن کے خلاف کارروائی کرتی، پولیس کے ذریعے پہلوانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر وہاں سے ہٹایا گیا اور ان کے خلاف پولیس کی کارروائی میں رخنہ اندازی کا الزام بھی لگایا گیا۔ ان لوگوں پر سیاست کرنے اور اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیلنے کا بھی الزام لگایا گیا۔ حالانکہ پہلوانوں نے بارہا اعلان کیا تھا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ بلکہ دھرنے کے اپنے پہلے مرحلے میں تو انھوں نے کسی بھی سیاست داں کو دھرنا گاہ تک جانے بھی نہیں دیا تھا۔


لیکن عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی، ان کے نام پر متعدد فلاحی اسکیمیں چلانے والی اور خواتین کو قانون ساز اداروں میں ریزرویشن دینے سے متعلق بل کا نام ناری وندن رکھنے والی حکومت کا رویہ ان خاتون پہلوانوں کے تئیں انتہائی افسوسناک اور سردمہری والا رہا۔ بلکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کا رویہ ان کے احتجاج کو کچلنے والا رہا۔ جبھی تو پولیس کی مدد لے کر زور زبردستی کرکے ان لوگوں کو وہاں سے ہٹایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے حوائج ضروریہ سے متعلق سہولتوں کو بھی ہٹانے سے گریز نہیں کیا گیا۔

پہلوانوں کا مطالبہ کوئی ایسا نہیں تھا جس کو تسلیم نہ کیا جاتا۔ ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آر درج ہو اور انھیں عہدے سے برطرف کر دیا جائے۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں پہلوانوں کا جنسی استحصال جاری رہے گا۔ لیکن جب پولیس نے کئی دنوں تک رپورٹ درج نہیں کی تو انھیں مجبوراً سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور کورٹ کے حکم پر رپورٹ درج کی گئی۔ پولیس نے اس معاملے کی جانچ کی اور عدالت میں اس نے جو رپورٹ داخل کی اس میں بھی ان پر جنسی استحصال کا الزام لگایا گیا۔ لیکن پولیس اپنی جانب سے کچھ بھی کہنے سے ڈرتی رہی۔ اس نے عدالت سے کہا کہ وہ جو چاہے کرے۔ چاہے تو برج بھوشن کو ضمانت دے دے اور چاہے تو جیل بھیج دے۔ بہرحال یہ معاملہ اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اگر حکومت نے ان کو برطرف کر دیا ہوتا تو احتجاج ختم ہو گیا ہوتا۔


دراصل برج بھوشن شرن سنگھ یوپی میں گونڈہ ضلع کے ایک طاقتور شخص ہیں۔ ان کو باہو بلی کہا جاتا ہے۔ وہ کئی تعلیمی ادارے چلاتے ہیں اور بارہ سال سے کشتی فیڈریشن کے صدر رہے ہیں۔ جب یہ معاملہ طول پکڑنے لگا تو کئی خاتون پہلوانوں نے پولیس میں بیان دیا جس میں انھوں نے انتہائی سنسنی خیز الزامات لگائے۔ جس کی برج بھوشن نے تردید کی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ لڑکیوں کو چھونے پر اپنی جانب سے وضاحت بھی کرتے رہے۔ دراصل حکومت ان کے خلاف اس لیے کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے کہ وہ بی جے پی کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان کی کوششوں سے اسے کافی ووٹ ملتے ہیں۔ اس لیے وہ انھیں ناراض کرنا نہیں چاہتی۔

احتجاج کے دوران پہلوانوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ فیڈریشن کے انتخاب میں نہ تو برج بھوشن کا لڑکا الیکشن لڑے گا اور نہ ہی ان کا کوئی قریبی۔ لیکن الیکشن لڑے ان کے ایک قریبی اور بزنس پارٹنر سنجے سنگھ۔ پہلوانوں نے ان کے مقابلے میں کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والی انیتا شیراؤں کو کھڑا کیا تھا۔ لیکن چونکہ فیڈریشن میں برج بھوشن کا دبدبہ ہے اس لیے انیتا کو صرف سات ووٹ ملے اور سنجے سنگھ کو چالیس ملے۔ اس انتخاب کے بعد اپنے پہلے ردعمل میں برج بھوشن نے کہا بھی تھا کہ پہلے بھی ان کا دبدبہ تھا اور آگے بھی رہے گا۔

ساکشی، بجرنگ پونیہ، ونیش پھوگاٹ اور دیگر پہلوانوں نے سنجے سنگھ کے انتخاب پر احتجاج کیا۔ ساکشی نے تو کشتی سے ہی سنیاس لینے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں اپنے جوتے دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اب اسے نہیں پہنیں گی۔ اس موقع پر وہ بہت جذباتی ہو گئیں اور روتے ہوئے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ ادھر بجرنگ پونیہ نے اپنا پدم شری لوٹا دیا۔ وہ پدم شری لوٹانے وزیر اعظم کی رہائش گاہ گئے تھے لیکن پولیس نے انھیں آگے نہیں جانے دیا جس پر وہ وہیں ایک پتھر پر اپنا میڈل رکھ کر واپس آگئے تھے۔ مبصرین کے خیال میں ان دونوں کے اس انتہائی قدم نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ سنجے سنگھ کو معطل کر دے۔

حالانکہ اس نے اس کے لیے ایک بہانہ تراشا کہ سنجے سنگھ نے فیڈریشن کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنجے سنگھ نے اپنے انتخاب کے روز ہی اعلان کیا تھا کہ انڈر۔15 اور انڈر۔19 قومی مقابلے سال کے ختم ہونے سے قبل ہی اترپردیش کے گونڈہ ضلع میں منعقد ہوں گے۔ کھیل وزارت نے اپنے حکم نامہ میں کہا ہے کہ نو منتخب صدر نے پہلوانوں کو پیشگی نوٹس جاری کیے بغیر اور ’ورلڈ فیڈریشن آف انڈیا‘(ڈبلیو ایف اے) کے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عجلت میں یہ اعلان کیا ہے۔ بیان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ نو منتخب باڈی سابق عہدے داروں کے مکمل کنٹرول میں ہے جو کہ اسپورٹس کوڈ کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا سارا کام سابق باڈی کے دفتر سے ہو رہا ہے۔ بیان میں سابق صدر برج بھوشن کی جانب اشارہ کیا گیا اور کہا گیا کہ سابق باڈی پر خواتین پہلوانوں نے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے اور یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔


اس طرح حکومت نے سنجے سنگھ کو معطل کرنے کے لیے ایک بہانہ تلاش کیا۔ حالانکہ سنجے سنگھ نے یہ اعلان 21 دسمبر کو صدر منتخب کیے جانے کے بعد ہی کیا تھا۔ لیکن حکومت کو یہ فیصلہ کرنے میں اتنے دن لگ گئے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ دباؤ میں آگئی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اب کوئی اور کھلاڑی سنیاس لینے یا اپنا میڈل واپس کرنے کا اعلان کرے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے الیکشن میں بی جے پی کو نقصان ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کی نقالی کرنے پر ان کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ان کی بھی توہین ہے اورپوری جاٹ برادری کی توہین ہے۔ اس پر جس طرح لوگوں نے دھنکھڑ کو گھیرا اور حکومت کے خلاف اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا اس سے حکومت ڈر گئی۔ اس کے خیال میں اس سے انتخابی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اس نے اس طوفان کو روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔

بہرحال پہلوانوں کی لڑائی نے کچھ رنگ دکھایا ہے۔ تاہم ان کو انصاف کے حصول کے لیے طویل لڑائی لڑنی ہوگی۔ جیت کی جانب ان کا یہ پہلا قدم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔