نظام کی بنیاد اور گاندھی جی کا جنتر

گاندھی جی کا ’جنتر‘ سب سے غریب انسان کے چہرے میں امید دیکھنے کا پیمانہ ہے۔ عوامی سنوائی کی تحریک اسی سوچ کو زندہ رکھتی ہے اور حقیقی سماجی و سیاسی خودمختاری کی بنیاد بنتی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

میناکشی نٹراجن

ہر نظام کے کچھ عملی اصول ہوتے ہیں، اور ان اصولوں کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے۔ گاندھی جی کے ’جنتر‘ نے ایک نو تشکیل شدہ قومی ریاست کو یہی بنیاد فراہم کی تھی۔ یہ جنتر دراصل ہزاروں سالہ تہذیبی تجربے کا نچوڑ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آئین ساز کمیٹی کے کچھ ارکان بابو جگ جیون رام کے ساتھ گاندھی جی سے ملنے گئے تھے تو انہوں نے یہ جنتر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس پر ان کا پختہ ایمان ہے۔

گاندھی جی کا جنتر کیا تھا؟ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہو، کوئی کشمکش سامنے آئے، تو اپنی آنکھوں کے سامنے سب سے غریب اور بے بس انسان کا چہرہ لائیں۔ اگر آپ کا قدم اس کے چہرے پر امید کی کرن جگا سکتا ہے، اسے روحانی سکون دے سکتا ہے اور سماجی و معاشی خود مختاری کی جانب لے جا سکتا ہے تو سمجھئے وہ صحیح فیصلہ ہے۔ یہی جنتر ہماری آئینی خودمختاری کی جڑ ہے۔

مگر آج ہم ایسے نظام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ شہری جوتے چپل اتار کر اور ہاتھ جوڑ کر کلکٹر کے دفتر جاتے ہیں، جیسے کسی مندر میں داخل ہو رہے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اس نظام کی مزاحمت کہاں سے شروع ہو؟ اس کا ایک جواب تلنگانہ کے ضلع عادل آباد کے گونڈی گاؤں سامکّا میں ملا، جہاں ’عوامی سنوائی‘ (جن سنوائی) کی صورت میں ایک پرامن اور متبادل خود اختیاری کا میدان ابھرا۔

ملک بھر سے پچیس تیس نوجوانوں کی ایک ٹیم اجنبی گاؤں پہنچی۔ نہ زبان جانتے تھے، نہ وہاں کے رسوم، مگر ہر گھر گئے، ان کے ساتھ کھایا پیا، ان کے اسکیموں سے متعلق مسائل کو قلم بند کیا۔ انہوں نے کلکٹر کے دفتر میں درخواست دی کہ ایک دن اور جگہ طے ہو تاکہ عوامی سنوائی ہو سکے۔ پھر گاؤں گاؤں کے لوگ اپنے اخراجات پر طے شدہ دن دفتر پہنچے۔


وہاں خیمہ لگا کر پوری انتظامیہ موجود رہی۔ نوجوان رضاکار لوگوں کو متعلقہ محکمے کے افسر کے پاس لے گئے۔ کچھ مسائل وہیں حل ہوئے، کچھ رہ گئے، مگر سب نے یہ احساس پایا کہ وہ بھیک مانگنے نہیں آئے بلکہ اپنے حق کے مطالبے کے لیے آئے ہیں۔

یہی اس عمل کی اصل خوبی تھی کہ یہاں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر مسئلہ کمپیوٹر ریکارڈ پر درج کیا گیا۔ افسر کو صاف جواب دینا پڑتا، لمبے وعدوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہی عمل نئے خودمختار کارکن پیدا کرتا ہے۔

سرمایہ کے سہارے چلنے والی سیاسی جماعتوں کے کارکن عام گاؤں میں رہنے، روٹی مانگنے یا عوام کے ساتھ سادگی میں رہنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انہیں چمک دمک کے ساتھ پیش آنا چاہیے، گویا اپنی عظمت دکھانی لازمی ہے۔

مگر اس عوامی عمل میں کارکن اپنی بھوک اور فطری ضرورت کے ساتھ گاؤں کے سامنے آتا ہے۔ کوئی دکھاوا نہیں، کوئی فاصلہ نہیں۔ وہ گاڑیوں میں بھر کر لوگوں کو لانے کے بجائے، انہیں اپنے خرچ پر آنے دیتے ہیں۔ یہاں ’ہم اور وہ‘ کی دیوار قائم ہی نہیں ہو سکتی۔

دنیا کے وہ لوگ جو بے زبان سمجھے جاتے ہیں، جب اکٹھے ہونے لگیں تو تبدیلی آ کر رہتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اقتدار کے گٹھ جوڑ کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ کب یہ رفتار تیز ہو جائے، کہنا مشکل نہیں۔ آخر ایک ذرے بھر نمک نے بھی سامراج کو ہلا دیا تھا۔

یہی عوامی سنوائی کا عمل راجستھان میں ’مزدور کسان شکتی سنگٹھن‘ سے شروع ہوا اور پھر پھیلتا گیا۔ کرناٹک میں ’منریگا‘ مزدوروں کی تنظیم ’کُلی کارمیکا‘ نے بھی ایسا ہی پرامن ڈھانچہ بنایا۔ ان سب کی بنیاد کے مرکز میں وہی گاندھی جی کا جنتر ہے، ’سب سے غریب کا چہرہ‘۔

اگر یہی بنیاد بنے تو ہمیں بھیڑ میں دکھنے والے وہی لوگ یاد آئیں گے جو کووڈ میں پیدل چلتے ہوئے لوٹے، جو ماحولیاتی بوجھ تلے دب گئے، جنہیں بلڈوزر نے روند ڈالا۔ ان کے دکھ سے ہمیں فرق پڑے گا، ہمارے دل میں ہمدردی جاگے گی اور یہی ہمدردی ہمیں حقیقی خود مختاری کی طرف لے جائے گی۔

یہی احساس ہماری سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی کنگالی سے نجات دلائے گا۔ شاید اسی خوف سے حکمرانوں نے این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے وہ جنتر ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن وہ جنتر کسی کتاب کا محتاج نہیں، کیونکہ عدم تشدد کے راستے پر چلنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔